تنظیم وقت: ضرورت و اہمیت

یاسر اسعد

1976 کے اولمپک مقابلوں کے دوران سو میٹر کی دوڑ کے آخری مرحلے میں کل آٹھ کھلاڑی شریک تھے۔ سونے کا تمغہ جیتنے والا کھلاڑی باقی کے آٹھ کھلاڑیوں سے صرف سیکنڈ کا دسواں حصہ زیادہ تیز تھا۔

امریکہ میں ہونے والی ایک گھڑ دوڑ میں جیتنے والے گھوڑے کو دس لاکھ ڈالر کا انعام ملا، دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے کو جو جیتنے میں فقط ناک کے فرق سے رہ گیا تھا، محض پچھتر ہزار ڈلر ملے۔

اوپر کے دونوں واقعات میں سب سے اہم کردار وقت کا رہا ہے، سیکنڈ جسے ہم ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے، اس کا دسواں حصہ بھی ہمیں بڑی سے بڑی شکست فاش دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہیں سے وقت کی اہمیت کھل کر سامنے آتی ہے، اور تنظیم وقت کی ضرورت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

درحقیقت وقت اللہ کی ان نعمتوں میں سے ہے جن پر انسان کا اختیار کلی بھی ہے اور وہ اس کے سامنے عاجز بھی ہے۔ بعض علماء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ایمان باللہ کے بعد انسان کے لیے سب سے بڑی دولت وقت کی ہے۔ اس کے قیمتی ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ دنیا کی ساری دولت کے عوض گزرا ہوا ایک منٹ واپس لانے پر انسان قادر نہیں۔ عربی زبان کا مقولہ ہے کہ وقت اس تلوار کی مانند ہے کہ اگر تم اس کو نہیں کاٹوگے تو وہ تم کو کاٹ دے گی۔ اور فی الوقت ہمارے معاشرے کی یہی روش ہے کہ ہم سب اس تلوار کے ہاتھوں کٹتے چلے آرہے ہیں، باوجودیکہ ہمارے پاس اس کو کاٹنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔

قدرت کی طرف سے ہر انسان کو یومیہ چوبیس گھنٹے بخشے گئے ہیں، انہیں چوبیس گھنٹوں کے طرز استعمال میں فرق سے بعض افراد آسمان دنیا کی بلندیوں کو پہنچ جاتے ہیں، اور بعض ساری حیات فضول کاموں میں صرف کردیتے ہیں، اگر انہیں منظم انداز میں ترتیب دے کر صرف کیا جائے تو معاملہ کتنا آگے بڑھ جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ بات ایک مثال سے سمجھیے!

جاپان اور نائیجیریا دونوں کے باشندوں کی تعداد اس وقت دیڑھ سو ملین ہے۔ جاپان کی سرزمین قدرتی خزائن سے بڑی حد تک محروم ہے۔ پٹرول، پھل فروٹ، میوہ جات، سبزیاں کچھ بھی درآمد نہیں ہوتا۔ قدرتی وسائل میں صرف مچھلیاں پائی جاتی ہیں، لیکن معیشت کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ قرضہ اور فقر ومحتاجگی کا تناسب وہاں پر صفر ہے، بے روزگاری بھی تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اور سب سے حیرتناک بات یہ ہے کہ جاپان دنیا کو ساری چیزیں ایکسپورٹ کرتا ہے۔

وہیں دوسری طرف اسی مقدار آبادی والا ملک نائیجریا جو تمام طرح کی قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہے، پٹرول، سبزیاں، میوہ جات اور دیگر عناصر سے بھرا پڑا ہے، وہاں ان سب کے باوجود بے روزگاری کا تناسب پچاس فیصد سے بھی زائد ہے۔ مزید برآں وہ اربوں ڈالر کے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل جاپان کو ۱۹۴۵ء؁ میں تاریخ کے بدترین حادثے سے دوچار ہونا پڑا تھا، دونوں وقت کی صورتحال دیکھ کر انسان غور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے اس ملک کو ترقی کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔

ترتیب وقت کے موضو ع پر گفتگو کرنے وقت ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ وقت کی تنظیم وترتیب کیوں ضروری ہے؟ کیا اس کے بغیر کوئی ترقی کی بلندیوں کو نہیں پہنچا؟ آخر اس امر پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟ ان سب کا جواب بھی یقینا کچھ نہ کچھ ہم اپنے اندر بھی پاتے ہیں۔ در حقیقت وقت کی تنظیم ہی ہمیں ہمارے خواب شرمندہ تعبیر کراسکتی ہے ۔ ہمارے ارد گرد جتنی بھی فطری چیزیں ہیں سب ایک نظام سے چلتی ہیں، شمس وقمر کے طلوع وغروب ہونے کا ایک محدود وقت ہے، اسی وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے دن، ماہ وسال ترتیب دیے ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال لا یعنی سا لگتا ہے کہ ترتیب وقت کیوں ضروری ہے۔

پھر یہ مشاہدہ بھی ہے کہ جو لوگ وقت کے ساتھ چلے ہیں وہ اپنی زندگی میں ان لوگوں سے کئی گنا آگے ہی رہے ہیں جنہوں نے وقت کو کوئی اہمیت نہیں دی، کیونکہ انہوں نے مقررہ اوقات کی رعایت کی حتی المقدور کوشش کی ہے، ان کے دن کی ہر ساعت کسی مفید کام میں گزری ہے، جب کہ لاپرواہ حضرات کے لیے آدھا ایک گھنٹہ یونہی بے کار گزاردینا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

مزید برآں اگر انسان وقت کی ترتیب کے ساتھ چلتا ہے تو اس کے پاس تفریح نفس کے لیے بھی کافی اوقات بچتے ہیں، جنہیں وہ اپنے اہل وعیال اور اقارب واعزہ کے ساتھ گزارسکتا ہے،وہ ہمیشہ اپنے آپ کو تنظیم وقت کے سبب ڈپریشن سے بچا لیتا ہے، وہ اپنے کام کو مقرر کردہ وقت کے اندر انجام دے کر فارغ ہوجاتا ہے اور ہر قسم کی قید سے آزا د محسوس کرتا ہے، اس کا وقت اس کے ہاتھوں میں رہتا ہے جسے وہ جس طرح چاہتا ہے گھماتا ہے۔ اس کے برعکس بے تنظیمی کاشکار انسان ہمہ وقت کام کے جھمیلوں سے ہی پریشان رہتا ہے، پھر آگے چل کر یہ چیز اس کو نفسیاتی دباؤ کا شکار بنا دیتی ہے جو بالآخر خطرناک امراض کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ڈپریشن کا شکار انسان اپنے کام کو احسن طریقے سے انجام دینے پر قادر نہیں ہوتا، نیز اس سے غلطیوں کے صدور کا امکان بھی اس سبب زیادہ ہوتا ہے، جو اس کی شخصیت کی بدنامی کا سبب بھی بنتا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں مل کر اس کو فوز وکامیابی کی منزلوں تک پہنچنے سے روکنے میں اہم کردار نبھاتی ہیں۔

مذکورہ بالا سوال اس لیے بھی ذہن میں جنم لیتا ہے کیونکہ تنظیم وقت کا موضوع اور اس کی عملی تطبیق بسا اوقات ہمیں نئی چیز معلوم ہوتی ہے، اور یہ فی زمانہ مغربی مفکرین کے ذریعہ رواج دیا گیا موضوع لگتا ہے، کیونکہ ہماری علاقائی زبانوں میں اس پر کوئی قابل ذکر مواد نہیں، پھر شاذ ونادر جو کتب موجود ہیں ان میں سے بیشتر ترجمہ شدہ ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہماری مذہبی کتابیں اور ہمارے اسلاف کے اعمال میں اس کا ذکر نہیں ملتا، اور ان سب کا نچوڑ یہ بنتا ہے کہ وقت کو ساتھ لے کر چلنا اور ڈسپلن کی پابندی کرنا ایک جدید فیشن ہے۔

بادی النظر میں یہ رائے درست لگتی ہے، مگر اس کو لے کر جب ہم تاریخ کا سفر کرتے ہیں تو یہ سب واہمے ثابت ہوتے ہیں، ورنہ چاہے معاملہ مذہبی کتابوں کا ہو، یا ہمارے اہل علم اسلاف کا، دونوں کے اندر اس کی اہمیت کا واضح ثبوت ملتا ہے اور عملی طور پر جابجا اس کی مثالیں موجود ہیں۔

قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے زمانے کے مختلف رنگوں کی قسم کھائی ہے، اور اللہ کی قسم کا اپنا الگ امتیاز ہے جو مقسوم علیہ کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے، ملاحظہ ہو چند قرآنی آیات:

{والفجر، ولیال عشر}

{والضحی، واللیل إذا سجی}

{والعصر}

{واللیل إذا یغشی، والنھار إذا تجلی}

مذکورہ بالا آیات میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ مختلف اوقات ہیں، پھر دن اور رات کی بھی قسم کھائی ہے، جو کہ سراسر انہیں اوقات سے عبارت ہیں۔ اس کے علاوہ مزید آیتیں پڑھیں:

{أقم الصلاۃ لدلوک الشمس إلی غسق اللیل وقرآن الفجر}

{إن الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا}

{شھر رمضان الذي أنزل فیہ القرآن}

{الحج أشھر معلومات}

{وسبح بحمدربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب، ومن اللیل فسبحہ وإدبار السجود}

ان آیتوں کے اندر بھی صراحت موجود ہے کہ خدائے تعالیٰ کی فرض کردہ عبادتوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، اور یہ شریعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وقت سے پہلے ان عبادتوں کی ادائیگی لایعنی امر ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔

ان عبادتوں میں بطور خاص نماز وقت کی بابت اہتمام میں ایک عظیم الشان مثال ہے، پانچ وقت کی نمازیں جو اپنے اوقات پر پڑھی جاتی ہیں درحقیقت تنظیم وقت کی ایک بہترین کسوٹی ہیں، جن کے لحاظ سے ہم اپنے یومیہ اعمال کی ترتیب کرسکتے ہیں، ان میں سونے، جاگنے، کھانے، پینے، پیشہ وارانہ مشغولیات وغیرہ کی رعایت موجود ہے، اگر ان پر پابندی کی جائے تو یقینا آدمی کے اوقات کی تنظیم میں مددملے گی۔ پھر اذان واقامت کے درمیان کا فاصلہ بھی شریعت کی طرف سے دی ہوئی ایک غنیمت ہے جس کے اندر ذکر واذکار اور تلاوت قرآن سے ہم اپنے یومیہ وظائف بآسانی پورے کرسکتے ہیں۔ اگر پندرہ منٹ کے اس وقفے کو کام میں لایا جائے تو محض دو تین اوقات کی تلاوت ہی مہینے میں ایک ختم قرآن کا فائدہ دیتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم اذان سن کر نہیں بلکہ اقامت سن کر مسجد کا رخ کرتے ہیں جو بیشتر اوقات رکعتوں کی فوتگی کا بھی سبب بنتا ہے۔

تنظیم وقت اور مستقبل کی خاکہ سازی کا عظیم درس ہمیں قرآن میں بیان کردہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے بھی ملتا ہے۔ بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر میں جب آپ نے بتلایا کہ آنے والے سات سالوں کے بعد ملک کو سخت قحط سالی کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ساتھ ہی آپ نے اس پریشانی سے بچنے کے لیے خلاصی کا راستہ بھی بتلادیا جو مستقبل کی پلاننگ اور ترتیب پر مشتمل تھی، نتیجتاً بہتر تنظیم کے سبب آپ کی قوم اس فاقہ کشی سے بچ گئی جو بصورت دیگر ان پر وارد ہونے والی تھی۔

وقت کی کمی یا مستقبل میں کسی بہتر امید کے معدوم ہونے کے سبب عمل سے منہ چرا لینے اور وقت کو غنیمت نہ سمجھنے والوں کے لیے درج ذیل حدیث میں بہت بڑی نصیحت موجود ہے، اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:  ’’اگر قیامت آجائے، اور کسی کے ہاتھ میں کھجور کی کوئی قلم بھی ہو (جسے وہ بونے کی کوشش میں ہو) تو اگر وہ اسے بونے کی پوزیشن میں ہو تو اسے چاہیے کہ اسے بو دے۔‘‘  (مسند احمد)

یہ بھی واضح کردیا کہ فراغت اور صحت ہی بیشتر لوگوں کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہے، وہ ان کی قدر نہیں کرپاتے اور جب مشغولیت یا مرض میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر اپنے بے کار کے گزارے ہوئے اوقات پر کف حسرت ملتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: صحیح بخاری: ۶۴۱۲)

ان تمام واضح اور صریح تعلیمات کے باوجود فی الحال ہم مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ افسوسناک ہے۔ وقت کی بربادی، عدم ترتیب وتنظیم، لایعنی باتوں اور کاموں میں وقت گزاردینا، مایوسی کا شکارہ ہوکر رہ جانا یہ ساری چیزیں صرف اور صرف منفی سوچ کی دین ہیں، اگر کسی نے اپنی زندگی کا ایک حصہ لایعنی کاموں میں گزار بھی دیا ہے، وقت کی کما حقہ قدر نہیں کرسکا ہے، تو بھی اس کے پاس پوری زندگی باقی ہے، جس کے سارے اوقات اس کی مٹھی میں ہیں، اب اس کے اوپر منحصر ہے کہ وہ کیسے ان سے فائدہ اٹھا کر اپنی پشیمانی دور کرسکتا ہے۔ کتب تاریخ میں بے شمار قصے ایسے صلحاء کے موجود ہیں جن کی ایک زندگی معصیت کے دلدل میں گزر ہوئی، پھر اللہ کی توفیق سے وہ صاحب علم وعمل ہوئے اور نامور لوگوں میں ان کا شمار ہوا۔

آپ کے تبصرے

3000