استناد کی جنگ!

عمر فراہی

دنیا میں اگر نبوی تحریک کا تصور نہ ہوتا اور لوگ اللہ اور اس کی وحدانیت سے آشنا نہ ہوتے تو طاقتور انسانوں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ کا نتیجہ تباہی اور فساد کے سوا اور کیا ہوتا ؟ پچھلی صدی کے سائنسی اور مادی انقلاب کے سبب دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی شکل میں جو فساد اور قتل عام ہو چکا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ استعماری طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئےتنہا اس پوری دنیا کی مالک و مختار بن جانا چاہتی تھیں۔انسان کا رشتہ جب اللہ سے کمزور پڑتا ہے تو اس کے اندر دولت شہرت اور نام ونمود کی لالچ پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف و توصیف کریں اور اس کے احترام میں سر خم کردیں۔وقت کے فرعون ونمرود اور قارون وشداد کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں آچکا ہے جنھوں نےانبیاء کرام کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے جنت وجہنم اور موت وزندگی کے مالک و مختار ہونے کا دعویٰ کیا اور انھیں اپنے دربار میں اپنی رعایا سے اپنی حمد و ثناکروانے میں لطف آتا تھا۔ اسلام کی سب سے افضل عبادت نماز میں سورہ فاتحہ کو لازم قرار دیا گیا ہے جس کی شروعات ہی الحمد اللہ رب العالمین سے ہوتی ہے ۔جس کا مفہوم ہے کہ تعریف صرف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ما لک ہے۔لیکن مخلوق میں شہرت نام ونمود تکبر اور تعریف وتکریم کے اس فلسفے کی ایجادابلیس کے ذہن کی اختراع ہے۔ حالانکہ ابلیس کسی سلطنت اور حکومت کا مالک نہیں تھالیکن اللہ نے زمین وآسمان کی اس وقت کی مخلوقات میں اسے جو مقام عطا کیا تھا وہ ایک عظیم الشان سلطنت سے بھی افضل اور برتر تھا۔ ایک مدت سے اپنی محنت مشقت اور ریاضت سے اللہ کی قربت اورفرشتوں کی جماعت میں اپنا استناد اور اعتماد حاصل کرنےکے بعد وہ اپنی شہرت ، تعریف ، پزیرائی اور نام ونمود کے نشے میں یہ بھول گیا کہ وہ ایک فرد اور مخلوق ہے اور اللہ قادر ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کے درجات میں کمی اور زیادتی کیے بغیر کسی اور مخلوق کو بھی بلند مقام عطا کردے ۔ بیشک یہی مشیت الٰہی ہے اور اللہ کا نیک بندہ وہی ہے جو اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھاجب ان کے بارے میں لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ ان کی قیادت میں اسلامی فوجیں شکست نہیں کھا سکتیں اور تاریخ میں آتا ہے کہ وہ لڑائی سے اس قدر بے خوف ہوچکے تھے کہ ایک بار انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رومی فوجوں سے تنہا مقابلہ آرائی کرتے ہوئے شہید ہوجانے کے اپنےعزم کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس بہادر سپاہی کی شہرت کے عروج کے دوران ہی جب امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کرکے اسلامی فوج کی سپہ سالاری ایک دوسرے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دی تو انھوں نے بغیر کسی تامل کے امیر کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کردیا ۔اسلامی تاریخ کے عروج کے دوران محمد بن قاسمؒ اور طارق ؒبن زیاد جیسے بہادر جانبازوں کی طاعت اور فرمانبرداری کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جنھیں مورخین نے سنہرے الفاظ میں لکھے ہیں اور یہی وہ سنہری دور تھا جب اسلامی سلطنتیں سیلاب کی طرح وسیع ہوتی چلی گئیں ۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ابلیس کو جب اپنی شہرت اور نام ونمود کی بنیاد پر قائم استناد کی عمارت منہدم ہوتے ہوئے نظر آئی تو وہ اپنے مالک کی نافرمانی کر بیٹھا ۔ یعنی ابھی تک اللہ کی عبادت کے ذریعے اسے جو خلافت میسر تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک دوسری مخلوق اس کا یہ استناد چھین لے اور اس نے آدم کو یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم مٹی سے۔اس کا کہنے کا مفہوم یہ تھا کہ آگ مٹی سے زیادہ طاقتور ہےاس لیے وہ آدم کو سجدہ کرکے اس کی خلافت کیسے قبول کرسکتا ہے؟اس طویل بحث اورتمہید کو یہاں پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ اپنی تحریک ، اپنی تحقیق ،اپنی جدوجہد اور دعوت میں مخلص ہیں تو کوئی آپ کی تحریک وتحریر اور تقریر کو چھین کر یاچرا کر آپ کے استناد اور اعتبار کو کبھی نہیں چھین سکتا ،اور آپ کا یہ استناد خالد بن ولید محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیادؒ کی طرح دنیا اور آخرت دونوں میں روشن رہے گا۔ چونکہ اب عمر ، خالد اور قاسم کا کردار قلمی جہاد میں تبدیل ہوچکا ہے اور ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح بحث و مباحثہ کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے اب بہت سے مصنفین کی تحریر و تصنیف اور تحقیق بھی فتنہ اختیار کر چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی تحریر و تصنیف اور تقریر و تحقیق سے کسی شخص یا تحریک کو استناد و اسناد حاصل ہو جائے جو اہل حق سے نہ ہوکر باطل کے لیے استعمال ہورہا ہو اور اسے لوگوں میں مربی اور استاد کی سند بھی حاصل ہوجائےتو ایسے لوگوں کا استناد امت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔ماضی میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کی شکست کی وجہ میر جعفر اور میر صادق کا استناد تھا جسے وقت کے یہ دونوں حکمراں سمجھ نہیں سکے ۔عرب میں لارینس آف عربیہ کے مشتبہ کردار کو جو استناد حاصل ہوچکا تھا اس نے عربوں میں عجمی اور عربی کا انتشار پیدا کرکے سلطنت عثمانیہ کی طاقت کو پارہ پارہ کردیا ۔ میڈیا میں ایسے مشتبہ کردار آج بھی مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں جو ہمارے لیے مربی اور استاد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے کمال چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو ہمارے دل کو بھی چھو لیتی ہیں لیکن اس کے منفی اثرات کا اندازہ بھی وہی لوگ لگا پاتے ہیں جو بین السطور پڑھنے کے ماہر ہیں ۔بدقسمتی سے نہ ہم ایسے میرجعفروں کے استناد کو بے نقاب کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسی تحریکوں پر انگلی اٹھانے کی جرات ہے جو انھیں استناد عطا کرنے کی مجرم ہیں۔ کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو پھر وہی استناد کی جنگ کے چھڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ابھی حال ہی میں ایک بزرگ صحافی نے ایسی ہی ایک مشہور شخصیت کا نام لے کر اس کی معتبریت پر حملہ کیا تو انھیں فون سے دھمکی دی گئی کہ زندہ رہنا چاہتے ہو یا نہیں ؟ سچ کہا جائے تو اس پرفتن دور میںجہاں اہل حق کو مٹانے کے لیے مسلح جدوجہد جاری ہے اکثر و بیشتر پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ماضی اور حال کی مستند شخصیات اور قیادت کی معتبریت کو مسلسل مشتبہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ اہل حق کسی خاص جہاندیدہ قیادت اور نظریے کو اختیار کر کے متحد نہ ہو جائیں۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ خود ساختہ دانشوروں کی بھیڑ نے ابلیس کا کام اور بھی آسان کردیا ہے جہاں کسی کے تعلق سے خواہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو پھیلائی گئی افواہ بھی بہت ہی تیزی کے ساتھ مشتہر کردی جاتی ہے ۔یا لوگوں کو ایسا کرنے میں مزہ آتا ہے ۔شاید سرسید اور مدن موہن مالویہ کی تعلیمی تحریک نے ہمیں علم اور ٹکنالوجی کے اہم مقام پر تو پہنچا دیا ہے ،لیکن بہت ہی تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہوتا ہوا ہمارامعاشرہ اب اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ اللہ ہمیں کسی مستند متقی اور نبی صفت قیادت سے منضبط کردے۔

آپ کے تبصرے

3000