صاحب تحفہ حضرت مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا شعری ذوق

راشد حسن مبارکپوری

قرآن مجید میں جہاں بے ہنگم شعرا پر تنقید کی گئی ہے وہیں صائب الفکر سخنوروں کو اس تنقید سے الگ کر دیا گیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے اگر شاعری کی مدح نہیں تو قدح بھی نہیں، اگر شاعری میں حسن و تغزل کے بجائے فکر اسلامی کی ترویج و تعمیم ہو اور اس کے ذریعے اسلام کی خدمت مقصود ہو تو ممدوح ہو جاتی ہے اور اگر اس کا مقصد ہوس کی تکمیل ہو تو مذموم ٹھہرتی ہے، عربی زبان کا جسے سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے اس کی شاعری کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ تمام مدارس میں داخل نصاب، عربی ادب کا نصاب اس کے بغیر ناممکن مانا جاتا ہے، اس کی شاعری میں داستان حسن و عشق کے ساتھ عریانیت اور برہنگی بھی ہے، لہٰذا اس کی شاعری دنیائے شعر و سخن پہ تاج عظمت تو ہو سکتی ہے مگر شریعت کی نگہ اعتبار پہ کبھی نہیں ٹک سکتی، نبی ﷺ سے مروی ہے یہ آدمی (امرء القیس) دنیا میں یاد کیا جاتا ہے، شریف سمجھا جاتا ہے مگر آخرت میں گمنام اور خامل الذکر ہوگا، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ شعرا کا جھنڈا جہنم کی طرف لے جا رہا ہوگا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی:۸۱؍۹۹، مجمع الزوائد: ۱؍۹۱۱) علماء محدثین کے بیانات کی روشنی میں یہ حدیث ناقابل احتجاج ہے۔
اسلام کے آنے سے شاعرانہ فکر و خیال میں کمزوری ضرور آئی مگر بالکل مردہ نہیں ہوگئی، اس میں زندگی کی رمق ضرور تھی ورنہ حضرت حسان بن ثابت شاعر رسول کی حیثیت سے نہ جانے جاتے، خود جب ابو سفیان بن حارث نے نبی ﷺ پر ہجو گوئی کی تو باقاعدہ آپ نے حضرت حسان کو جواب دینے کا حکم دیا، جب حضرت عمرؓ نے حضرت حسان پر مسجد میں شعر گوئی کی بابت اظہار نکیر کی تو حضرت حسان نے بہت دو ٹوک جواب دیا: کنت أنشد و فیہ من لم ھو خیر منک، میں آپ سے بہتر ذات (نبیﷺ) کی موجودگی میں اس مسجد میں شعر گوئی کرتا تھا، تفصیلات صحیحین میں موجود ہیں، شاعر رسول کا یہ شعر حب نبیﷺ میں نمونہ وارفتگی کے لیے لازوال علامت بن گیا۔
وأحسنُ منک لم تَرَقطُّ عینی
و أجملُ منک لم تلدِ النساء
خلقت مبرء اً من کلِّ عیب
کأنک قد خلقت کما تشاء
تیرے اتنا حسین میری نگاہوں نے نہ دیکھا،اور تیرے جیسا کمال حسن سے آراستہ تو کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔ تو ہر عیب سے پاک پیدا ہوا، ایسا لگتا ہے تیری تخلیق میں تیری چاہت بھی شامل تھی۔
حضرت حسان کے علاوہ شعراء صحابہ میں کعب بن مالک انصاری، کعب بن زہیر بن ابی سلمی مزنی، بحیر بن زہیر بن أبی سلمی مزنی، ابو سفیان بن حارث (جو بعد میں اسلام لائے) عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد ہے جس نے نبی ﷺ کی مدح سرائی میں اشعار کہے، امام ابن سید الناس نے ایک خاص کتاب تالیف کی جس میں مادحین رسول صحابہ کرام کی تعداد ایک سو اسی(180) بتائی ہے، ظاہر ہے ان صحابہ کرام نے اسلامی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے شاعری کی، اسلام کے خفتہ اسرار و رموز سمجھائے، ان کی شاعرانہ کوششیں اسلام کے مفاد میں تھیں اس لیے رسول اللہ نے کبھی اس کا نوٹس نہ لیا، بلکہ انداز سراہنے والا ہی رہا، خود نبی أقدس ﷺ کی زبان مبارک سے کچھ کلمات ایسے بھی نکلے: أنا النبی لاکذب/ أنا بن عبدالمطلب،، جو بجائے خود شعری ذوق کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ہر چند کہ قرآنی فیصلے کے مطابق شعر گوئی نہ تو آپ کو سکھائی گئی اور نہ ہی آپ کے لیے مناسب ہے۔ اس کو سیاق کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ در اصل کفار مکہ کے جواب میں ’’وما ھو بقول شاعر‘‘ کی تفصیل و شرح ہے، آگے بڑھیے تو صاحب ’’سیرت البخاری‘‘ جدالجد علامہ عبدالسلام مبارک پوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں امام بخاری کے ایک آدھ اشعار بھی نقل کیے ہیں اس وضاحت کے ساتھ کہ وہ شاعر نہیں تھے، امام شافعی کا اور امام ابن حجر کا باقاعدہ مطبوع دیوان اسلامی لائبریریوں کی زینت ہے، اپنی بات کو مدلل اور دلکش پیرہن دینے کے لیے اکابر علماء اسلام نے جا بجا اور موقع بہ موقع اشعار سے استمداد کیا ہے کہ اس سے پڑھنے اور سننے والے کی طبیعت میں ایک نشاط پیدا ہو جائے، فکر و فن شعرو سخن سے ساحرانہ قوت کشید کرتے ہیں اور یہی قوت معانی و بیان کا گلدہ بن کر انسانی ذہن پر چھا جاتی ہے، پھر ذکی الحس اور قوی الشعور قاری کے فکر و خیال پر کاتب کی عظمت کے نقوش مرتسم ہو جاتے ہیں۔
شاعر ہونا ایک الگ چیز ہے اور شاعری میں اعلی ذوقی کا مظاہرہ اس سے الگ، ہر شاعر کے لیے باذوق ہونا ضروری ہے مگر ہر باذوق کے لیے شاعر ہونا ضروری نہیں، اسے منطق کی زبان میں عموم خصوص مطلق کہتے ہیں۔ مثلاً عبادت اور نماز کا مسئلہ لے لیجیے، ہر نماز عبادت تو ہے مگر ہر عبادت نماز نہیں، ذرا نیچے آئیے تو ہر لڈو مٹھائی ہو سکتا ہے مگر ہر مٹھائی لڈو نہیں – یہی وجہ ہے کہ ہمارے حلقہ ادب و ثقافت میں باذوق اورسخن فہم افراد کی ایک لمبی قطار ملے گی، بیک جنبش لب مختلف زبانوں کے سنہرے اشعار ٹوٹی ہوئی لڑی کے موتیوں کے مانند بکھرنے لگتے ہیں، دوسری جہت تخلیق فن کی ہے جہاں قوت تخیل کے ساتھ رقت احساس کی بے کرانی اور گرمی شعور کی فراوانی ہونا ضروری ہے،اگر حسن ذوق میں بر جستگی کا عنصر شامل ہو تو مزہ دو آتشہ ہو جاتا ہے اور اگر گوناگوں اور ہمہ جہت ذخیرے کے علی الرغم بر محل اظہار کا سلیقہ نہ ہو تو اس ذوق کا کچھ حاصل نہیں ہوتا، کسی بھی انجمن عرفانی میں چھا جانے کے ہنر کا سرچشمہ یہیں سے ابلتا ہے، ہمارے ممدوح صاحب تحفہ حضرت مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کے اندر یہ ذوق بڑا تحیر آفریں تھا، خصوصاً نقد و تعریض کے وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس سے نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ ماہرانہ دستگاہ حاصل تھی، ان کے یہاں اس کا استعمال بھی خوش گوار حیرت کا احساس دلاتا ہے، عالمانہ متانت و عظمت کے دوبدو ان کی اس ادبی جہت کی بازیافت کی طرف نگہ توجہ کسی کی نہ جاسکی اور اگر گئی بھی ہوگی تو لیت و لعل کی پیچیدہ گتھیوں میں الجھ کر اوجھل ہو گئی ہوگی، شاید یہ اس ریگ صحراء کا اولین نقش ہو جو بساط فکر و ادب کا شہ پارہ بھی ہو سکتا ہے اور نقد و تعریض کا گوشوارہ بھی، ثانی الذکر اس لیے بھی کہ زاہدانہ خیال آرائی شاعرانہ آگہی کا منفی عنصر ہے جو اگر دیکھتا ہے تونگہ تکفیری سے اور جرح و تعدیل کی کم کوشیاں اس پر مستزاد، اس خیال کو حفیظ نے ذرا سطحی انداز میں کہا ہے۔
دیکھو یہ پندار تقوی ٹھیک نہیں ہے مولانا
شعرو ادب کا ذکر چھڑے تو چیں بہ جبیں ہو جاتے ہو
اس فکر کی ترقی یافتہ شکل وہ ہے جو بدقسمتی سے اردو کے حصہ میں آئی، جس میں تمسخرانہ لب و لہجہ کا غلبہ ہے، چنانچہ پیرمغاں، شیخ حرم، زاہد خشک، حضرت شیخ اور ان جیسے الفاظ ملتے ہیں جو ادبی لفظیات جام و سبو، مینا و ساغر، بادہ کشی، قدح خواری اور مئے کشی کی رفاقت میں نظر آتے ہیں – ستم ظریفی تو یہ ہے کہ کوئی شاعر اس وقت تک مینار عظمت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ میکدہ کو شیخ حرم سے نہ جوڑ دے، اس کی واقعی ان گنت مثالیں ہیں۔
مسجد سے میخانے تک ملتے ہیں نقوش پا
یا شیخ گئے ہوں گے یا رند گیا ہوگا
اب ظاہر ہے مسجد سے جانے والا تو شیخ ہی ہوگا، رند تو کم از کم مسجد آنے سے رہا۔ اب ذرا اور آگے آئیں تو:
ساقی کا اور اور ہے واعظ کا اور اور
یہ اور اور اور ہے وہ اور اور اور
جیسی مثالیں بھی مل جائیں گی۔
تحریر کے اس حصے سے زاہدانہ خشک مزاجی کاختم لگانے کی کرم فرمائی نہ کی جائے تو نوازش ہوگی کہ ہم تو ریاض، شکیل، مجروح اور احمد فراز کی نکہت ریز قدح خواریوں کے شدت سے قائل ہیں، اس حد تک کہ ایک مرتبہ اس نوائے سوختہ در گلو نے ایک صاحب کی وفات پر فکر خامہ اوراق پریشاں پر بکھیرے، اخیر میں یہ شعر لکھا:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گذری
مدیر مجلہ نے عرض کیا یہ شعر ہٹا دیں، پوچھا کیوں، کہا اس میں ذرا مجنوں اور دیوانہ کے الفاظ ہیں، اگر ہماری شریعت میں ماتم کی اجازت ہوتی تو ضرور کرتا مگر اس زاہدانہ ذوق پر اظہار افسوس کے علاوہ کر ہی کیا سکتا تھا۔ البتہ حضرت غالب کا یہ شعر زیر لب گنگنائے بغیر نہ رہ سکا:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہوں تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یہ باتیں اگر دل میں برافروختگی یا کبیدگی پیدا کریں تو یہ شعر گنگنا لیں: مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
صاحب تحفہ مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری کی مطبوع و غیر مطبوع تالیفات کی تعداد ۷۱؍ہے جن میں تین ضخیم ہیں، تحفۃ الأحوذی، مقدمہ تحفۃ الأحوذی، ابکار المنن فی تنقید آثار السنن، بقیہ رسالے کی شکل میں ہیں۔ کچھ کو ادارہ دار العلوم اثریہ فیصل آباد پاکستان نے ’’مقالات محدث مبارکپوری‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ صاحب تحفہ نے ان رسالوں میں بر محل اشعار نقل کیے ہیں، جن سے ان کے پختگی ذوق کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہاں ہم بعض کو نقل کرتے ہیں تاکہ خوانندگان ذی وقار کو بھی مولانا کے ذوق و آگہی سے روشناسی اور لطف اندوزی کا موقع ملے۔
محدث مبارکپوری رحمہ اللہ رسالہ نورالابصار میں لکھتے ہیں: ’’ناظرین! آپ جانتے ہیں کہ کیوں جناب مؤلف نے بنی سالم کو مدینہ کا محلہ بنایا ہے، بات یہ ہے کہ اگر جناب شوق یہاں صحیح صحیح لکھ دیتے اور ظاہر کر دیتے کہ موضع بنی سالم قبا اور مدینہ کے درمیان ایک دیہات ہے جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلے پر واقع ہے، تو اسی پہلی دلیل سے دیہات میں جمعہ کا جائز و درست ہونا ثابت ہو جاتا ہے اور آپ کی پہلی دلیل بالکل درہم برہم ہو جاتی ہے۔ پس مؤلف کے صحیح اور سچی بات کے ظاہر نہ کرنے میں یہی بھید ہے۔
راز معشوق نہ افشا ہوجائے
ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہ تھا (مقالات محدث مبارکپوری، ص:۷۶)
مولانا شوق نیموی حنفی کے رد میں رسالہ نورالأبصار میں لکھتے ہیں:
’’پھر حاشیہ پر آپ نے یہ تحریر کیا کہ حضرات غیر مقلدین کے نزدیک مسافر پر بھی نماز جمعہ فرض ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، اہل حدیث کے نزدیک بھی مسافر پر جمعہ فرض نہیں، کما مرّ، مگر ہمارے الزامی اورتحقیقی جوابوں سے ان کل بے سروپا باتوں کی خوب خوب دھجیاں اڑ گئیں اور شوق کی پہلی دلیل بالکل برباد ہوکر ھباء منثورا ہوگئی۔
بات تو تونے بنائی تھی یہاں خوب مگر
تھی جو بگڑی ہوئی قسمت تو بنی خوب نہیں (مقالات، ص:۴۷)
نورالأبصار کے نام پر تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اے ناظرین! نورالأبصار کوئی نیا نام نہیں ہے علمائے متقدمین و متأخرین کی متعدد کتابیں اس نام سے اور اس نام کے اور مترادف ناموں سے موسوم ہو چکی ہیں، از ایں جملہ ’’نور الأبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار‘‘ ایک مشہور کتاب ہے، مگر مولانا شوق صاحب کو ان باتوں کی کیا خبر، ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ یہ حضرت غزلیات وہزلیات لکھ رہے تھے اور حسن اور شام سند کی کہانی منظوم کر رہے تھے اور چند روزوں سے محدث کامل الفن بن بیٹھے ہیں۔ ابھی ان حضرت کو اس نام کی قدر کیا معلوم۔
ہنوز طفلی و ازنوش و نیش بے خبری
زعشق ماچہ کہ از حسن خویش بے خبری‘‘ (مقالات:۸۳۱)
خیار الأبصار فی رد تبصرۃ الأنظار کی ابتدا میں محدث مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’پس واضح ہو کہ مولوی ظہیر احسن صاحب شوق نیموی نے ان دنوں ایک رسالہ سیر بنگال اور اس کے ساتھ ہمارے رسالہ ’’تنویر الأبصار‘‘ کا جواب ’’تبصرۃ الأنظار‘‘ کے نام سے لکھ کر شائع کیا ہے۔ جس کو دیکھ کر اہل علم تو اہل علم لڑکے تک ہنستے ہیں، ہمارے مخاطب حضرت شوقؔ کو رسالہ لکھ کر شائع کرنے سے مطلب ہے۔ مہملات و خرافات سے مملو ہو بلا سے، علماء ہنسیں بلا سے، آپ اپنے اس شعر کے پورے عامل ہیں:
اے شوقؔ بلا سے نہ ہوں کچھ گل بوٹے
جو رنگ ہے اپنا وہ نہ ہرگز چھوٹے‘‘ (مقالات:۰۴۱)
اسی کے آگے لکھتے ہیں:
’’صاحبو! بات یہ ہے کہ جب ہمارے پر زور اور زبردست رسالہ ’’نورالأبصار‘‘ کا جواب کسی طرح نہ ہو سکا تو جواب نہ لکھنے کی چند وجہیں آپ نے تراش کر شائع کیں، مگر ماشاء اللہ وہ وجہیں کچھ ایسی معقول اتریں کہ انھیں سب لوگ خوب اچھی طرح سمجھ گئے۔ کہ
زاہد نہ داشت تاب جمال پری رخاں
کنجے گرفت و ترس خدارا بہانہ ساخت‘‘ (مقالات:۱۴۱)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’أقول: خوب حضرت نے تو بقول میں تو ڈوبا ہوں ولے تجھ کو بھی لے ڈوبوں گا
اپنی ڈبل غلطی میں اکابر محدثین کو بھی شریک کر دیا‘‘ (مقالات:۴۴۱)
رسالہ ضیاء الأبصار میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’لیجیے آپ ہی کے کلام سے موضع قبا کا یہاں کے کوس سے یعنی ہندی کوس سے تین کوس کے فاصلے پر ہونا غلط ثابت ہوگیا اور قبا کے تین کوس کے فاصلے پر ہونے کے ثبوت میں آپ نے جو تقریر سلجھا کر لکھی تھی وہ آپ ہی کے قلم سے درہم برہم ہوگئی۔
دیکھتے ہو کیا ادھر گر زلف برہم ہوگئی
یہ سرا سر حرکت باد صبا تھی میں نہ تھا (مقالات:۶۴۱)
رسالہ ضیاء الأبصار کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’دیکھیے اس خطرناک راہ میں جب آپ کے حواس ٹھکانے نہیں رہے تھے تو خود اپنے آپ کو آپ نے بدحواس اور ہوش و حواس باختہ بنایا ہے۔ جناب! بدحواس کو بدحواس کہنا یا یوں کہنا کہ اس کے حواس ٹھکانے نہیں نہ کچھ خلاف تہذیب ہے اور نہ اس میں کچھ مضائقہ ہے۔
سودائی کو سودائی کہو شوق سے لیکن
ہوشیار کو دیوانہ بنانا نہیں اچھا
آگے لکھتے ہیں:
اگر کوئی آپ کا دوسرا خضم ہوتا تو ایسے موقع میں آپ کے لیے یہ مصرع پیش کرتا: بے حیا پاش و ہرچہ خوہی کن (مقالات:۹۴۱)
رسالہ ’’المقالۃ الحسنی فی سنیہ المصافحۃ بالید الیمنی‘‘ میں عربی کا ایک شعر اس ضمن میں نقل کیا ہے کہ ھدایہ تو فقہ حنفی کی ممتاز کتاب ہے مگر اس میں دو ہاتھوں سے مصافحہ کا ذکر نہیں۔
ان الھدایۃ کالقرآن قد نسخت
ماصنفوا قبلھا فی الشرع من کتب
یعنی ہدایہ نے قرآن مجید کی طرح تمام ان کتابوں کو منسوخ کر دیا جو اس سے پہلے لوگوں نے تصنیف کی تھیں‘‘۔ (مقالات:۳۵۱)
اسی رسالہ میں اللہ تعالی کے قول ’’ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ (أحزاب:۴) کے ضمن میں یہ شعر نقل کیا ہے:
ہم معتقد دعوی باطل نہیں ہوتے سینے میں کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے (مقالات:۹۸۱)
حضرت مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ نے جب ’’بلوغ المرام‘‘ کے طرز پہ ایک کتاب بنام ’’آثار السنن‘‘ لکھی، جس میں ایسی حدیثوں کو جمع کرنے کی سعی کی گئی تھی جو حنفی مذہب کی تائید میں تھیں اور صحت و ضعف کا خیال نہ رکھا گیا تھا، چنانچہ صاحب تحفہ حضرت مولانا محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس کا تنقیدی جائزہ بنام ’’أبکار المنن فی تنقید آثار السنن‘‘ لیا، جواب تقریباً ۰۱۹؍صفحات پر مولانا ابوالقاسم عبدالعظیم مدنی کی تحقیق و تخریج اور مفتی حرم ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس حفظہم اللہ کی تقدیم سے سرزمین حجاز سے شائع ہوکر قبول عام حاصل کر چکا ہے۔
اسی کتاب میں آمین بالجہر کے مسئلہ پر ایک حدیث کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
رہا مسئلہ لفظ ’’فجھر بآمین‘‘ کا تو یہ اس سے بلند آواز میں آمین کہنا بالکل ظاہر ہے، اور رہا لفظ ’’مدّ بھا صوتہ‘‘ تو اس کا اطلاق بھی بلند آواز میں آمین کہنے پر ہوتا ہے اور یہ اس شخص پر مخفی نہیں جو اس کے استعمال کی جگہوں سے واقف ہے، یہاں ہم ان سے کچھ ذکر کر رہے ہیں۔
صحیح بخاری میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے غزوہ احزاب کے موقع سے روایت کردہ حدیث ہے کہ آپ مٹی نقل کرتے جاتے اور عبداللہ بن رواحہ کے یہ شعر گنگناتے جاتے:
اللھم لولا أنت مااھتدینا ولا تصدقنا ولاصلیا
فأنزل سکینۃ علینا و ثبت الأقدم إن لاقینا
إن الأولی رغبوا علینا وإن أرادوا فتنۃ أبینا
قال: ثم یمد صوتہ بآخرھا (أبکار المنن:۸۹۵)
الٰہی! اگر تیری توفیق نہ ہوتی تو ہم ہدایت یاب نہ ہوتے، نہ صدقہ کرتے نہ نمازیں پڑھتے، لہٰذا تو ہمارے اوپر سکینت نازل فرما، نیز دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت ثابت قدمی مرحمت فرما، انھوں نے ہم سے اعراض و بغاوت کی، جب بھی شر انگیزی کی کوشش کی ہم پیچھے ہٹ گئے۔
ایک روایت میں (بغوا علینا) بھی ہے، پھر آخری کلمہ ’’أبینا‘‘ پہ جب پہنچتے تو آواز بلند کر لیتے، (بآخرھا) کی تشریح دیگر روایات میں موجود ہے۔
اس استدلال سے صاحب تحفہ نے ثابت کیا کہ بلند آواز سے آمین ہی ثابت ہے۔
رسالہ ’’القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید‘‘ میں لکھتے ہیں:
مدینہ میں سات امام بہت بڑے پایہ کے گذرے ہیں جو افضل و کبار تابعین سے ہیں اور جو فقہائے سبعہ کے لقب سے مشہور ہیں اور جن کے علو شان و اسمائے گرامی کو کسی شاعر نے دونوں شعروں میں اس طرح ظاہر کیا ہے:
ألا کل من لایقتدی بأئمۃ فقسمتہ ضیزی عن الحق خارجۃ
فخذھم عبیداللہ عروۃ قاسم سعید أبوبکر سلیمان خارجہ
یاد رکھو جو لوگ ان ائمہ (جن کا نام ابھی آرہا ہے) کی اقتداء نہ کریں، ان کی تقسیم ظالمانہ اور نا منصفانہ ہے اور وہ حق سے خارج ہیں وہ ائمہ یہ ہیں۔ عبیداللہ بن عبداللہ، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق، سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن، سلیمان بن یسار، خارجہ بن زید۔ (مقالات:۶۰۲) یہ رسالہ سوال و جواب کے انداز پر لکھا گیا ہے۔
رسالہ ’’القول السدید‘‘ میں فرماتے ہیں:
بہت تعجب ہے علامہ علاؤ الدین رحمہ اللہ جیسے علامہ پر کہ آپ کو محققین کا یہ مذہب معلوم ہوا اور کیا آپ کو محققین کا یہ مذہب معلوم نہ تھا کہ ہر ایک راوی کی زیادتی مقبول نہیں ہوتی ہے ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اور وہ بھی کب؟ کہ جب علت شذوذ سے پاک ہو اور زیر بحث سند میں مرفوع روایت کرنے والے (ابو عائشہ) ثقہ نہیں ہیں۔ بلکہ مجہول ہیں اور مجہول کی زیادتی بالاتفاق نامقبول وغیر معتبر ہوتی ہے اور اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اس رافع مجہول سے چشم پوشی بھی کر لیں تو بھی رفع کی زیادت علت شذوذ سے پاک نہیں ہو سکتی۔
فإن کنت لاتدری فتلک مصیبۃ وإن کنت تدری فالمصیبۃ أعظم (مقالات:۸۳۲)
اگرتمھیں معلوم نہیں تو یہ تو مصیبت ہے ہی، لیکن اگر معلوم ہو تو یہ اس سے بڑی مصیبت ہے۔
رسالہ کتاب الجنائز جو قدرے ضخیم ہے، تقریباً ۸۸؍صفحات پر مشتمل ہے، نہایت قیمتی اور علمی رسالہ ہے جو مقالات محدث مبارکپوری میں شامل ہے، اس کا ترجمہ جامعہ سلفیہ بنارس کے سابق شیخ الجامعہ شیخ ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کیا ہے، معلوم نہیں وہ مطبوع ہے یا نہیں، صاحب تحفہ نے اس کتاب کا خاتمہ اس شعر سے کیا ہے:
گرنہ قضا بود کہ باہم رویم
می رسد آں وقت کہ ماہم رویم
مولانا شوق نیموی کی کتاب ’’آثار السنن‘‘ کی پہلی جلد جب منظر عام پر آئی تو اس میں بہت سے علمی، فقہی اور حدیثی تسامحات اور مغالطات تھے، جس کا بروقت نوٹس لینا ضروری تھا، چنانچہ صاحب تحفہ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے سردست اردو زبان میں سرسری جواب لکھا، جس کا نام ’’إعلام أھل الزمن‘‘ رکھا۔ چنانچہ رسالہ میں لکھتے ہیں:
حضرات ناظرین!یہ چند مثالیں ہیں آپ کی ’’دیانت‘‘ کی، اس طرح کی ’’دیانتوں‘‘ سے آپ کی کتاب ’’آثار السنن‘‘ مملو ہے، اس کتاب میں ان احادیث ضعیفہ کے صحیح و قابل استدلال ٹھہرانے میں جو مذہب حنفی کے مخالف ہیں مؤلف نے جو جو بے جا کاروائیاں، چالاکیاں اور جو جو رنگ آمیزیاں اور ملمع سازیاں کی ہیں، ان کو دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ تضعیف احادیث صحیحہ و تصحیح احادیث ضعیفہ کی بابت آپ نے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے، کون سی ایسی چال ہے جو آپ نہیں چلے، کون سی ایسی چالاکی ہے جس کے آپ مرتکب نہیں ہوئے۔
کون سی فکر نہ کی کون سی تدبیر نہ کی
ہم نے اپنے دل مضطر کے سنبھلنے کے لیے (مقالات:۴۷۳)
یہ تو چند مثالوں کے ذریعے ہمارے ممدوح حضرت مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کے ذوق شعری کی ایک ہلکی سی جھلک تھی، طوالت کے خوف سے ہم نے بہت سی مثالیں ترک کر دیں، اس حوالے سے ہم نے صرف چھوٹے رسالوں پر اعتماد کیا ہے، آپ کی عظیم الشان کتاب ’’تحفۃ الأحوذی‘‘ میں بھی اس کی مثالیں تو ضرور مل جائیں گی اور مقدمہ تحفۃ الأحوذی میں تو ہیں ہی، مقدمہ کی بابت از راہ افادہ اتنا عرض ہے کہ یہ کتاب جامعہ سلفیہ بنارس و مدینہ کے فاضل ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی؍ حفظہ اللہ و رعاہ کی فاضلانہ تحقیق و اعتناء سے ’’فوائد فی علوم الحدیث و کتبہ و أھلہ‘‘کے نام سے ایک ہزار چالیس (1040) صفحات پر دارالمنہاج للنشرو التوزیع ریاض سے کمال جاذبیت کے ساتھ شائع ہو کر اہل علم سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہے۔ والحمدللہ
واقعی یہ کمال کی بات ہے کہ خالص علمی اورفقہی تحریر میں بھی صاحب تحفہ نے اپنے اعلی شعری ذوق کا مظاہرہ کیا، یہ انہی کا حصہ ہے، اللہ ان کے مرقد کو نور سے بھر دے، ہم نے یہاں اقتباس کے ساتھ اشعاراس لیے نقل کیے ہیں تاکہ ان کی برجستگی اور بر محل اشعار پیش کرنے میں ماہرانہ گرفت کا اندازہ ہو سکے، علامہ تقی الدین ہلالی-آپ کے شاگرد- نے تحفۃ الأحوذی کی شان میں ایک شاندار عربی قصیدہ لکھا تھا، وہ بھی تحفہ کے اخیر میں شامل ہے، ساتھ ہی آپ نے جو اجازہ حدیث تحریر فرمایا ہے، ان میں بھی شروع میں یہ شعر درج ہے:
وإذا أجزت مع القصور فإ ننی أرجوا لتشبہ بالذین أجازوا
السالکین إلی الحقیقۃ منھجا سبقوا إلی غرف الجنان ففازوا
میں اپنی بے بضاعتی کے باوصف اجازہ حدیث اس لیے دے رہا ہوں کیوں کہ اجازہ دینے والے محدثین سے تشابہ کی امید کرتا ہوں، وہ منہج کے لیے حقیقت کی طرف چلنے والے تھے، جنت کے بالا خانوں کی طرف سبقت کرکے کامیاب ہوگئے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Khubaib hasan

اس مضمون کو جتنی بار پڑھو اتنا ہی اچھا لگتا ہے-
بہت خوب بڑے بھائ جان-
رب کریم آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے- آمین