چائے کا حساب

شمس الرب خان

 

” سیٹھ جی، لیجیے آج کی اپنی چاۓ کا حساب دیکھ لیجیے”، گولو نے اپنی ‘چوپڑی’ سیٹھ جی کی طرف بڑھائی.

” تو پھر آگیا رے حرامی! آج کتنی چاۓ بڑھا لی ہے رے بہن…!” سیٹھ جی نے گولو کو موٹی موٹی گالیوں سے نوازا.

” یقین کیجیے، سیٹھ جی! میں نے ایک بھی چاۓ اپنی طرف سے نہیں بڑھائی ہے، اتنی ہی لکھی ہے جتنی آپ نے منگوائی ہے.” گولو نے گالیوں کو نظر انداز کرتے ہوۓ بھولے پن سے جواب دیا.

” چل رے مادر…. جانتا ہوں تم لوگوں کو، بغیر حرام کھاۓ پیٹ نہیں بھرتا تم لوگوں کا.” یہ وہ سیٹھ جی کہہ رہا تھا جس کی پوری کی پوری کمائی ہی حرام کے ارد گرد گھومتی تھی.

” سیٹھ جی، آپ ناحق ناراض ہو رہے ہیں. آپ ہی کے ساتھ روز کا کاروبار ہے اپنا، آپ ہی کو دھوکہ تھوڑی نہ دوں گا.” گولو نے بڑی عاجزی سے کہا.

” ٹھیک ہے، چل ‘چوپڑی’ دکھا رے چور!”

گولو کے ساتھ یہ روز کا معاملہ تھا. سولہ سال کا گولو چاۓ کی ایک دوکان پر ملازم تھا. آس پاس کی دوکانوں پر چاۓ پہونچانا اور حساب کروانا اس کا کام تھا. کام تو آسان تھا لیکن ذلت بے انتہا تھی. ‘سیٹھوں’ کے اس محلہ میں اس جیسے غریب سے کوئی بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا. بات بات پر ماں بہن کی گالی ملتی تھی. لیکن کر بھی کیا سکتا تھا، مجبورا سہنا پڑتا تھا.

” پیٹ کے لیے سب کچھ سہنا پڑتا ہے.” سولہ سال کا بوڑھا گولو زور سے بڑبڑاتا، احساس ذلت کو ذہن سے جھٹک دیتا اور پھر گالی سننے دوسرے سیٹھ جی کے پاس چلا جاتا.

لیکن آج گولو کچھ الگ دکھائی دے رہا تھا. چہرہ ستا ہوا تھا، آنکھیں نمناک تھیں اور جسم میں پہلے جیسی پھرتی نہ تھی. آج اس کی ماں بیمار تھی. آج صبح ہی دوکان مالک کے موبائل پر گاؤں سے اس کے چاچا کا فون آیا تھا کہ اس کی ماں زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے. وہ ماں کو دیکھنے گھر جانا چاہتا تھا لیکن دوکان مالک نے چھٹی دینے سے سختی سے منع کر دیا:

” پانچ ہزار روپیہ ایڈوانس لے چکا ہے، رے بہن…! تو گھر چلا گیا تو پیسہ کون بھرے گا، تیرا مرا ہوا باپ؟ چل جا سیٹھ جی کو چاۓ پہونچا کر آ اور حساب بھی کرتے آنا.”

بادل نخواستہ ایک ہاتھ میں چاۓ کی کیتلی اور دوسرے ہاتھ میں ‘چوپڑی’ تھامے گولو سیٹھ جی کے کارخانے کی طرف چل دیا!!!

” سیٹھ جی، چاۓ! اور یہ ‘چوپڑی’ بھی دیکھ لیجیے!” اس کی آواز بجھی ہوئی تھی.

” حرامی کا پلا! پھر اپنی منحوس ‘چوپڑی’ دکھا رہا ہے، مادر…”

” خبردار، سیٹھ جی! آج ماں کی گالی مت دینا.” گولو میں نہ جانے کہاں سے اتنی جرات آگئی تھی.

پہلے تو سیٹھ جی کو اپنی کانوں پر یقین نہیں آیا پھر چہرہ پر مصنوعی سنجیدگی اوڑھ کر اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو دیکھا. آخر میں نگاہیں گولو کے چہرے پر مرکوز کر کے ٹھٹھے مار مار کر ہنسنے لگا. ارد گرد بیٹھے لوگ بھی ہنسنے لگے.

” لاٹ صاحب کو دیکھو. کہہ رہے ہیں کہ ماں کی گالی مت دینا، سالا اچکا کہیں کا،” سیٹھ جی نے گولو کا مخول اڑایا، ” آج کیا ہو گیا ہے رے، تیری ماں کو؟ کسی کو لے کر بھاگ……”

سیٹھ جی اپنا جملہ پورا بھی نہ کر پایا تھا کہ اس کے حلق سے بڑی بھیانک چیخ نکلی بالکل ویسی ہی جیسی کہ کسی تنومند بھینسے کو ذبح کرتے وقت اس کے حلق سے نکلتی ہے.

گولو نے کیتلی کی کھولتی ہوئی ساری چاۓ سیٹھ جی کے چہرے پر انڈیل دی تھی!

اس واقعہ کے بعد سے گولو تو اس محلہ میں نہیں دکھائی پڑا لیکن اس کی چاۓ آج بھی سیٹھ جی کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے، جھلسی ہوئی چمڑی کی شکل میں !!!

آپ کے تبصرے

3000