یہاں لباس کی قیمت ہے، آدمی کی نہیں

حافظ خلیل سنابلی

صلاحیتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں – جیسے لکھ پڑھ لینا بول لینا صلاحیت ہے ویسے خیر کے عناصر کو جوڑ لینا شرپسندی کو توڑ دینا بھی ایک صلاحیت ہے – بلکہ جوڑ توڑ ہی بڑی صلاحیت ہے اس کے بغیر اولوالامر ہونا محال ہے – دعوت کو فنکاری بنادینے سے ایک الگ ہی قوم وجود میں آجاتی ہے جس کا خمیازہ سارے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے – صلاحیتیں کوئی ریزرویشن مانگنے کی اہلیتیں نہیں ہیں – اگر یہ خیر چاہتی ہیں تو “المومنون والمومنات اولیاء بعضھم الی بعض…” کی شکل اختیار کریں – حقوق اللہ کی ادائیگی کے بعد ان پر بندوں کے جو حقوق نکلتے ہیں وہ ادا کریں صورت حال بننی شروع ہوجائے گی – صحابہ ایک دوسرے کا سپورٹ کرتے تھے اپنی اپنی صلاحیتیوں کے ذریعے – ہم مقابلہ کرتے ہیں – جب تک نااہل ہوتے ہیں تب تک مقابلہ دیکھتے رہتے ہیں اور جیسے ہی کسی لائق ہوجاتے ہیں مقابلے پر اتر آتے ہیں – اپنے درمیان ایسے مقابلوں سے انتشار پھیلتا ہے قوتیں کمزور ہوتی ہیں – اسی رخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ درج ذیل استحصال کا کوئی اور علاج نہیں ہے. (ایڈیٹر)


آج ہماری گفتگو کا محور وہ لوگ ہیں جو مانندِ ڈھول ہوا کرتے ہیں، اوپر سے بہت زور سے بجتے ہیں مگر انھیں گہرائی و گیرائی سے دیکھنے کے بعد کچھ بھی نہیں نکلتا – جنھیں لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، ان کی جناب میں اپنی پلکیں بچھاتے ہیں اور اپنے تمام مسائل میں انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں مگر ان کی حقیقت کسی اور چیز کی جانب غمازی کرتی ہے… ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جو باصلاحیت نہیں ہوتے بلکہ انھیں باصلاحیت سمجھ لیا جاتا ہے، جو بڑے نہیں ہوتے بلکہ انھیں بڑا بنا دیا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا علم نہیں ان کا لباس بولتا ہے، یہ وہ ہیں جن کے پاس صلاحیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی مگر کچھ نا عاقبت اندیش اور کم ظرف لوگ انھیں بڑے بڑے اسٹیج پر بلانا اور ان کے لیے کرسیاں آگے کرنا اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں… عوام کی ایک کثیر تعداد بھی اسی طرف چل نکلتی ہے جدھر کی ہوا ہوتی ہے… یہاں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جہاں بندے کی صلاحیت سے پہلے اس کے فیملی بیک گراؤنڈ اور اسٹیٹس (status) کو دیکھا جاتا ہے، آدمی سے زیادہ یہاں لباس کی قیمت ہو چکی ہے…..

میرے محترم بھائی! آپ ذی علم ہیں، آپ کے پاس بے شمار صلاحیتیں ہیں ہمیں تسلیم ہے لیکن اگر آپ لوگوں کے مجمع میں اسی بات کا اعلان کریں گے تو کوئی بھی آپ کی بات کو تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ یہاں شہرت کا بول بالا ہے اور کام سے پہلے آپ کا نام دیکھا جاتا ہے… آپ اگر اپنے بچے کا داخلہ کسی ادارے میں کرانا چاہتے ہیں اور آپ کے پاس کسی بڑی شخصیت کا “سورس (source)” نہیں ہے تو آپ سفر کی روانگی سے پہلے ہی واپسی کی ٹکٹ بک کرالیں بلکہ بہتر ہوگا کہ آپ سفر ہی نہ کریں… ہم نے دیکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جس بندے کا کھونٹا جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس کے کام کا اتنا ہی جلدی ہو جانا ممکن ہے… حضور والا ہم تو ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جن کے بچے پڑھائی میں صفر ہوتے ہیں لیکن ان کے کھونٹے کی مضبوطی کے سامنے ادارے کے ممبران کو جھکنا پڑتا ہے، ہم نے بڑے بڑے دینی اسٹیج سے ایسے “علماء ذی وقار” کو بھی بولتے ہوئے سنا ہے کہ جن کے اخلاق کا گراف بے انتہا ڈاؤن ہے مگر چونکہ انتظامیہ کے کسی ممبر سے ان کی رشتہ داری تھی اس لیے شہرت کا سنہرا موقع ہاتھ آ گیا… الغرض آج اس دور جدید میں باصلاحیت ہونے کے باوجود کتنے انسان تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور ایک کم عقل و کند ذہن نیز بودے انسان کو اس کے کھونٹے کی مضبوطی آگے بڑھا دیتی ہے اور اس طرح وہ ان گنت افراد کی بربادی کا ذریعہ بن جاتا ہے… اسی طرح بے شمار با صلاحیت اور بہترین علماء و دعاۃ ایسے ہیں جو دعوت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں لیکن ان کی گمشدگی اور کھونٹے کی کمزوری انھیں اس میدان میں آنے سے پہلے ہی دور دھکیل دیتی ہے اور لوگ ڈھول نما علماء کو اسٹیج دے کر انہی سے فیضیاب ہوتے ہیں نتیجتاً ایسے علماء طوطے جیسا کردار نبھاتے ہیں اور کسی بھی ارتجالی، ہنگامی نیز فوری عنوان پر خطاب کرنے سے دور بھاگتے ہیں… سوال اٹھتا ہے کیا ایسے لوگوں کو آگے بڑھانے والے رب کے یہاں مجرم نہیں ہوں گے؟ کیا رشوت اور ڈونیشن لے کر قیمتی لباس والوں اور ان کے غیر ذمہ دار و نالائق بچوں کو آگے بڑھانے والے رب کے یہاں عذاب کے مستحق نہیں ہوں گے؟ کیا باصلاحیت اور قابل علماء و افراد کا استحصال کرنے والی “شخصیات” رب کی پکڑ کا خوف نہیں رکھتے؟… مجھے تو رہ رہ کر خود کو ان سوالات کے نرغے میں پیش کرنا پڑتا ہے، کیا آپ کے ذہن کے دروازے پر کبھی ایسے سوالوں نے دستک دیا ہے؟؟؟

 

آپ کے تبصرے

3000