اسلام کا علمی وثقافتی ورثہ اور دینی مدارس

رفیق احمد رئیس سلفی

دینی مدارس وجامعات کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اسلام کے علمی وثقافتی ورثہ کے محافظ ہیں۔ دین کے حوالے سے جو متنوع خدمات اہل اسلام نے انجام دی ہیں اور جو بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے ،جامعات ومدارس اس سے اپنا رشتہ استوار کیے ہوئے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ورثہ کی حفاظت اور اس کی اشاعت کو وہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ان کی تعلیمی وتدریسی سرگرمیوں کا محور بھی یہی ورثہ ہے ۔ اس سے انھیں انسیت بھی ہے اور ذہنی مناسبت بھی بلکہ وہ خود بھی اسی ورثے کا تسلسل ہیں اور اسلاف کرام نے اسلام کی ترجمانی اور اس کی تشریح کے لیے جو علوم وفنون ایجاد کیے ہیں ،ان کو سینے سے لگاکر ان کی افادیت کو تہذیب، تنقیح اور تشریح کے ذریعے عام کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی بحمد اللہ یہ سلسلہ بغیر کسی وقفہ کے جاری ہے۔دینی مدارس میں جو نصاب تعلیم مروج ہے وہ کسی حد تک اسلام کے علمی ورثہ کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے اور اس نصاب کو صحیح طور پر مکمل کرنے والا طالب علم اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنی تراث سے استفادہ کرسکے۔
مذکورہ بالا گفتگو اس حسن ظن کا نتیجہ ہے جو ہمیں اپنے دینی مدارس سے ہے لیکن زوال وانحطاط کے عمل نے شاید دینی مدارس کی اندرونی فضا پربھی منفی اثرات ڈالے ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں ان ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں جو اس اسلامی ورثہ کے تعلق سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔اس کے کئی ایک داخلی وخارجی اسباب ہیں جن کو ہم سب جانتے ہیں لیکن ان کو دور کرنے کے لیے کسی موثر اقدام کی جرأت شاید ہمارے اندر نہیں ہے۔ ایک بہت سیدھی بات ہے جس کو انسانی فطرت بھی چاہتی ہے کہ کوئی شخص کسی ذمہ داری سے مخلصانہ وابستگی دو وجہوں سے رکھتا ہے ۔مکمل عزت واحترام یا بھرپور معاوضہ۔ کوئی بھی شخص کہیں بھی خدمت انجام دیتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس کا احترام کیا جائے ۔اگر یہ نہ ہو تو وہ اس کام سے وابستگی اس وجہ سے بھی رکھتا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو اس کام کا مجھے اتنا معاوضہ ملتا ہے کہ میری ضروریات پوری ہورہی ہیں۔ مدارس کے نظام سے وابستہ تمام افراد اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اضطرابی کیفیت سے دوچار استاذ یا انتظامیہ سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ان کے ہاتھوں ذمہ داریوں سے انصاف ہوگا۔ کاش ہم ارباب مدارس تک اپنی یہ بات پہنچا پاتے کہ مدارس کی فضا کو پرسکون بنانے کے لیے اس پہلو کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ادب واحترام کے تمام ممکنہ الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے اس درخواست کی ہمت ہم کربیٹھے ہیں، امید ہے کہ اس سے کسی کی پیشانی شکن آلود نہیں ہوگی اور اس التجا پر توجہ دی جائے گی۔
ہندوستان کے موجودہ دینی مدارس کی صورت حال بہت زیادہ اچھی نہیں ہے ۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ مدرسے کا ایک سند یافتہ شخص قرآن کے انڈکس سے مطلوبہ آیت تلاش نہ کرسکے،کیا اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک منتہی طالب علم مصباح اللغات یا المنجد سے مطلوبہ لفظ تلاش نہ کرسکے اور کیا اس بات کا خیال ذہن میں آسکتا ہے کہ کوئی حدیث ’’المعجم المفہرس لألفاظ الحدیث النبوی ‘‘سے تلاش نہ کی جاسکے۔ لیکن اس کو کیا کریں کہ اس طرح کے دسیوں نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں۔کم ہی طلبہ ایسے ہوں گے جو نصاب کو تقویت پہنچانے والی غیر درسی معاون کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوں۔ ہمارا سماج یہ امید رکھتا ہے کہ ایک عالم دین ہمارے درمیان جب آئے گا تو وہ نہ صرف دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے گا بلکہ دنیا کے مختلف نشیب وفراز سے بھی ہمیں واقف کرائے گا۔ کیا سماج کی رہنمائی سماج کو سمجھے بغیر ممکن ہے، کیا ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی قیادت کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے جسے نہ اسلامی تاریخ کا علم ہو اور جو نہ ہندوستان کی تاریخ سے واقفیت رکھتا ہو۔ سماج اور تاریخ کا مطالعہ ہمارے نصاب کا حصہ نہیں ہے لیکن وہ ایک عالم دین کی ضرورت ہے جس کی طرف طالب علمی کے ایام میں اساتذۂ کرام کی جانب سے رہنمائی ضروری ہے۔
دنیا میں مسلم دانش وروں کی کمی نہیں ،خود ہمارے ملک میں تمام گلی کوچوں میں طرح طرح کے دانش ور موجود ہیں ۔دانش وروں کی خاصی بڑی تعداد اپنی خفت مٹانے یا سماج میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے علماء، مدارس، ان کے نصاب تعلیم اور ان کے طرز حیات پر ہر طرح کی تنقید بھی کرتی ہے ۔لطف کی بات یہ بھی ہے کہ ملت کی فلاح وبہبود کے نام پر حاصل ہونے والی تمام سیاسی مراعات اپنے حق میں محفوظ کرکے یہی طبقہ عیش وعشرت کی زندگی بھی گزارتا ہے لیکن جب ملت پر نازک وقت آتا ہے تو اس کا سہارا بننے کی بجائے ،وہ علماء پر گرجتا اور برستا ہے ۔یہ صورت حال بتارہی ہے کہ تمام تر کمزوریوں اور کمیوں کے باوجود ملت کے لیے مخلصانہ جذبہ علمائے کرام کے اندر ہی پایا جاتا ہے اور عوام انھیں کی طرف دیکھتی ہے ۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ علمائے کرام ہی اسلام کے ترجمان ہیں،اس اسلام کے جو اللہ کا آخری دین ہے اور جو دنیا اور آخرت کی سعادت کا موجب ہے ۔اہل دنیا انھیں کن خطابات سے نوازتے ہیں اور کن القاب سے ملقب کرتے ہیں،اس کی پروا کیے بغیر انھیں اپنا مشن جاری رکھنا چاہئے اور خوب سے خوب تر کی تلاش ویافت کا سلسلہ باقی رہنا چاہئے ۔
موجودہ دور میں بعض نیم علماء اور نیم دانش وروں نے اسلام اور اہل اسلام کے لیے کئی طرح کی آزمائشیں پیدا کردی ہیں ۔جو دین اپنے نام کے اعتبار سے سراپا امن وسلامتی تھا ،اس پر تشدد پھیلانے کا الزام عالمی سطح پر لگایا جارہا ہے اور مسلمانوں کو مطعون کیا جارہا ہے ۔ نام نہاد دانش وروں کی شاگردی اختیار کرکے بہت سے مسلم نوجوان گمراہی کے راستے پر چل کھڑے ہوئے ہیں۔اسلام اور اس کی شریعت کو طاقت کے زور پر نافذ کرنے کی وکالت کی جارہی ہے اور ذہن سازی اور زمین ہموار کیے بغیر اسلامی حدود وتعزیرات کے نفاذ کی باتیں ہورہی ہیں اور خود مسلم ممالک کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ہے اور دین پسند طبقے کو حکومتوں سے ٹکرادیا گیا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر چہار جانب قید وبند اور قتل وخوں ریزی کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواہے،ان نازک حالات میں ملت کی صحیح رہنمائی کا فریضہ علمائے اسلام اور فارغین جامعات ودینی مدارس ہی کو انجام دینا ہے۔کیا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی تربیت ہم اپنے طلبہ کو دیتے ہیں۔’’دین میں کوئی زور زبردستی نہیں،تمھارے لیے تمھارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین،اللہ چاہتا تو تمام انسان ایک ہی ملت کے پیروکار ہوتے اور انسانوں کے درمیان پائے جانے والے بہت سے اختلافات کے فیصلے کا دن مقرر ہے اور وہ آخرت کا دن ہے‘‘۔کیاقرآن حکیم کے یہ تمام ارشادات اور اس کے یہ سارے اصول اس بات کی طرف رہنمائی نہیں کرتے ہیں کہ داعیان اسلام کی ذمہ داری صرف اپنی بات کو موثر انداز میںدنیا کے سامنے رکھ دینا ہے۔ترغیب وترہیب کا طریقہ اپنا کر بندگان خدا کو اس کے دین کی طرف بلانا ہے ۔اس سے زیادہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
مذکورہ بالا باتیں ہمارے موضوع سے گہرا تعلق رکھتی ہیں اور جس اسلامی تراث کی حفاظت کی ہم بات کررہے ہیں ،ان مسائل کو سمجھے بغیر اس کی حفاظت کرنا آسان نہیں ہے۔دینی مدارس اپنے مشن اور مقاصد کے لحاظ سے ہمارے متحرک ادارے ہیں،جو دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں ،وہ جمود کا شکار نہیں ہوسکتے اور نہ ان چیلنجز سے پہلو تہی کرسکتے ہیں جو ملت کو درپیش ہیں۔سوال یہ ہے کہ طلبائے مدارس کی علمی وفکری تربیت کیسے کی جائے اور ان کی علمی سرگرمیوں کا دائرۂ کار کیا متعین کیا جائے؟اس سلسلے میں اہل فکر ونظر کو غور کرنا چاہئے اور اپنے مفید مشوروں اور تجاویز سے طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہئے۔
(۱) غیر درسی؍ہم نصابی کتابوں کا مطالعہ
درسیات سے تعلق رکھنے والی کتابیں متعین موضوعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔اسلام،اس کے علوم اور اس کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے جن اصولوں سے واقفیت ضروری ہے،بالعموم درسیات کی کتابیں انہی اصولوں کی تفہیم کراتی ہیں۔تفصیلات اور دیگر متعلقات کا علم ہمیں بعض دوسری کتابوں سے ہوتا ہے۔مثال کے طور پر قرآن ،حدیث اور فقہ میں سیرت نبوی سے متعلق بعض اہم باتیں زیر بحث آتی ہیں لیکن سلسلہ وار سیرت نبوی بیان نہیں کی جاتی ۔اب اگر کوئی طالب علم سیرت نبوی سے متعلق چند کتابیں سلسلہ وار پڑھ لے تو سیرت طیبہ کی ایک جامع تصویراس کے سامنے آجائے گی اور درسیات میں سیرت سے متعلق اشارے سمجھنے میں اسے آسانی ہوگی اور سیرت نبوی کا خاصا مطالعہ بھی ہوجائے گا۔سیرت نبوی کی بعض اردو کتابوں کے مطالعے کا مشورہ طلبہ کو دینا چاہئے ۔میں یہاں چند کتابوں کی ایک فہرست پیش کرتا ہوں ،امید ہے کہ طلبہ اسی ترتیب کے ساتھ ان کا مطالعہ کریں گے۔

۱) مہر نبوت قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری

۲)رحمت عالم مولانا سید سلیمان ندوی

۳)در یتیم ماہر القادری

۴)تجلیات نبوت مولانا صفی الرحمن مبارک پوری

۵)محسن انسانیت نعیم صدیقی

۶)الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارک پور

۷)رحمۃ للعالمین قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری

۸)پیغمبر عالم مولانا عبدالمبین منظر

۹) اصح السیر مولانا عبدالرؤف داناپوری

۱۰) سیرۃ المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندھلوی
۱۱) رحمت عالم مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی

۱۲) سیرۃ النبی علامہ شبلی وسید سلیمان ندوی
اس فہرست میں مزید کتابوں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔اگر یہ کتابیں چار چھ ماہ میں ایک طالب علم پڑھ جائے تو سیرت طیبہ کی ایک اجمالی تصویر اس کی نگاہوں میں آجائے گی اور وہ سیرت نبوی کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے خود کو پُر اعتماد محسوس کرے گا۔اس کے بعد اگر اللہ توفیق دے تو عربی زبان میں سیرت نبوی کی امہات کتب کا مطالعہ کرے اور اس موضوع پر جو اولین کتابیں لکھی گئی ہیں اور جو سیرت نبوی کا بنیادی ماخذ ہیں ،ان کو زیر مطالعہ لائے۔ اسی طرح اساتذہ کی رہنمائی میں وہ بعض دوسرے موضوعات کا بھی انتخاب کرسکتا ہے اور اپنے مطالعے کو صحیح رخ دے سکتا ہے۔
(۲) مطالعہ کیسے کریں؟
دارالاقامہ کی زندگی ایک پرسکون زندگی ہوتی ہے۔تعلیم وتعلم کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ نہیں ہوتا۔گھر کی ذمہ داریوں سے کوئی واسطہ نہیں ۔کھانے پینے اور رہنے سہنے کی بھرپور آزادی ہوتی ہے۔اس لیے طلبہ کو مطالعہ کے لیے کافی مواقع ملتے ہیں۔عصر کی نماز سے مغرب تک کا وقت اگر بامقصد کھیل کود کے لیے فارغ کرلیا جائے پھر بھی کافی وقت ہوتا ہے جس میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔بعض طلبہ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مطالعہ کیسے کریں۔منتشر کتابیں پڑھنے سے مطالعہ میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا ،اس کے لیے ترتیب ضروری ہے ۔موضوع کی تعیین ضروری ہے ۔بعض طلبہ کی اردو عربی کمزور ہوتی ہے اور وہ زیر مطالعہ کتاب سمجھ نہیں پاتے جس سے جی گھبرانے لگتا ہے اور مطالعہ میں یکسوئی پیدا نہیں ہوپاتی۔مطالعہ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو بھی کتاب مطالعہ کے لیے منتخب کریں ،اس کے موضوع سے آپ کی دل چسپی ہو۔ڈکشنری رکھ کر مطالعہ کریں،جہاں کہیں مشکل لفظ دوران مطالعہ آئے اس کا معنی ڈکشنری میں دیکھ لیں۔کوئی اور بات سمجھ میں نہ آئے تو کسی استاذ سے سمجھ لیں۔اس طرح دو چار ماہ کے مطالعہ کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اب آپ کے مطالعے کی رفتار بڑھ گئی ہے ۔اگر ابتدا میں پچاس صفحے پڑھنا بھاری لگتا تھا تو اب دوسو صفحات پڑھنے میں آپ کو کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے۔دینی مدارس میں طلبہ کی اپنی لائبریری ہوتی ہے۔اس کا انتظام چست بنایا جانا چاہئے اور طلبہ ہی کو اس کی ذمہ داری دینی چاہئے۔ہر سال اس میں نئی کتابوں کا اضافہ ہونا چاہئے ۔سال کے آغاز میں طلبہ سے جو فیس وصول کی جاتی ہے ،اسی سے کوئی رقم ان کی لائبریری کے لیے مختص ہونی چاہئے۔رسائل اور اخبارات کا مطالعہ کرنے سے زمانہ کی رفتار سے طلبہ واقف ہوتے ہیں ۔ملکی اور غیر ملکی رسائل وجرائد طلبہ کی ایک بڑی ضرورت ہیں۔طلبہ کو اگر سماج کی قیادت کے لیے تیار کرنا ہے تو انھیں یہ مواد فراہم کرنا ضروری ہے۔
(۳) اسلامی علوم کے بنیادی مصادر کی معرفت
دینی مدارس کی درسیات محدود ہیں۔تعلیم کے دورانیہ میں اس کی نوبت نہیں آتی کہ طلبہ کو اسلام کے بنیادی علوم جیسے تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، شروح حدیث، علوم حدیث، اصول فقہ اور کتب فقہ کی سیر کرادی جائے۔ اگر ان کو کسی طرح ان کے نام بھی معلوم ہوجائیں تو ان کا منہج تالیف اور طرز تصنیف ان پر واضح نہیں ہوتا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ امہات کتب اسلامیہ تک نہیں پہنچ پاتے اور ان کے فکر میں وسعت اور گہرائی نہیں پیدا ہوپاتی۔بعض طلبہ جن کو مواقع مل جاتے ہیں،وہ مدارس سے فارغ ہوکر اپنی ان کمیوں پر قابو پالیتے ہیں لیکن اکثریت تاحیات اس کمی کا شکار ہوتی ہے اور جس اعتماد کے ساتھ ایک عالم دین کو دین کے مسائل پر اظہار خیال کرنا چاہئے ،اس اعتماد سے محروم ہوتی ہے۔تفسیر،علوم قرآن،حدیث،علوم حدیث،شروح حدیث،رجال حدیث،جرح وتعدیل،فقہ اور اصول فقہ،سیرت نبوی،اسلامی تاریخ وغیرہ کے بنیادی مصادر سے طلبہ کو کیسے روشناس کرایاجائے ۔یہ ایک بڑا سوال ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر مختلف مضامین کے اساتذہ یہ ذمہ داری قبول کرلیں تو بہت آسانی پیدا ہوجائے گی۔مثال کے طور پر تفسیر کا استاذ اگر قرآن کے مقررہ نصاب سے آیات کا انتخاب کرکے طلبہ کو بتائے کہ ان آیات کی تفسیر ابن جریر طبری نے یہ کی ہے،امام ابن کثیر کی تفسیر یہ ہے اور امام رازی ان آیات کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں تو طلبہ کا ذہن کھلے گا اور وہ امہات کتب تفاسیر سے واقف ہوسکیں گے۔بلکہ اگر ایک ذمہ دار استاذ مختلف کتب تفاسیر کے نمونے نیٹ کا استعمال کرکے ایک مذکرہ بنالے اور طلبہ کو فراہم کرے تو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔تعلیم کا دورانیہ ختم ہوجاتا ہے اور طلبہ کو یہی نہیں معلوم ہوتا کہ حافظ جلال الدین سیوطی کی تفسیر در منثور میں کیا ہے اور وہ کس طرح آیات قرآنی کی تفسیر کرتے ہیں۔شروح حدیث کے معاملے میں بھی یہی طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔اگر ایک ایک حدیث کی شرح کے نمونے ابن حجرکی فتح الباری ،امام نووی کی شرح مسلم،شمس الحق عظیم آبادی کی عون المعبود ،مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کی تحفۃ الاحوذی،شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی کی مرعاۃ المفاتیح اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی التعلیقات السلفیہ سے جمع کر لیے جائیں اور ان کی کاپیاں طلبہ میں تقسیم کردی جائیں تو طلبہ کو ہر ایک شارح حدیث کے اندازواسلوب کی معرفت ہوجائے گی اور وہ ان کتب شروح کی طرف رجوع کرسکیں گے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ مفسر اور محدث بنیں تو طالب علمی کے دور میں ان کے اندر تفسیر اور حدیث کا ذوق پیدا کرنا ہوگا ۔
(۴) ہوم ورک سے طلبہ کو مصروف رکھیں
دینی مدارس کے نظام میں ہوم ورک کا تصور نہیں ہے۔طلبہ اپنے طور پر کچھ پڑھ لیں تو اور بات ہے۔زیادہ سے زیادہ آموختہ کو دہرانا ان کی کل معراج ہے۔آیندہ کے سبق کا مطالعہ کرنا بھی ان کی مصروفیات سے باہر ہے۔ہوم ورک تعلیم کے لیے بہت ضروری ہے۔ آج عصری تعلیمی اداروں میں اسباق کی تمام مشقیں اور تمرینات بھی استاذ حل نہیں کراتا بلکہ کچھ طلبہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور ان کو مکلف کرتا ہے کہ اسے گھر سے مکمل کرکے لائیں۔ہمارے یہاں شاید عربی انشاء ایک ایسا مضمون ہے جس میں ہوم ورک ملتا ہے باقی مضامین میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔تفسیر،حدیث اور فقہ میں بھی ہوم ورک دیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے استاذ کو تھوڑی محنت کرنی ہوگی۔اس کا طریقہ یہ اپنایا جاسکتا ہے کہ مثال کے طور پر بلوغ المرام کے طلبہ کو مکلف کیا جائے کہ ہر طالب علم ایک ایک حدیث پہلے سے دیکھ کر آئے۔اس کے مشکل معنی کاپی پر لکھ کر لائے۔وہ ترجمہ بھی لکھیں اور جو فقہی مسئلہ مستنبط ہوتا ہو ،اسے بھی تحریر کرکے لائیں ۔اس طرح اگر کلاس میں چالیس طلبہ ہیں تو چالیس احادیث ایک دودن میں طلبہ کے زیر مطالعہ آسکتی ہیں۔پھر کلاس میں ایک ایک طالب علم سے اس کی اپنی تحریر سنی جائے،استاذ غلطیوں کی اصلاح کرتے جائیں اور جو باتیں طالب علم سے رہ گئی ہیں،ان کی تفصیل بتاتے جائیں۔اس کام میں ممکن ہے دوچار دن لگ جائیں لیکن اس سے طلبہ کے اندر جو خود اعتمادی پیدا ہوگی ،وہ انھیں مضبوط بنائے گی ۔مشکوۃ المصابیح اور دوسری کتب احادیث کے ساتھ بھی یہی طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔ہمارے یہاں کی ایک عام شکایت یہ بھی ہے کہ بلوغ المرام اور مشکوۃ المصابیح کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اگر ہوم ورک کے اس طریقے کو اپنایا جائے تو شاید یہ شکایت بھی دور کی جاسکتی ہے ۔
جرح وتعدیل،رجال حدیث اور حدیث کی فنی حیثیت کی تعیین ہمارے نصاب کا بہت مضبوط حصہ نہیں ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ طلبہ کسی حدیث پر حکم لگانے سے قاصر ہوتے ہیں۔بلکہ ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ محدثین کسی حدیث پر حکم کیسے لگاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقات سے ہمارے ملک میں بہت کم استفادہ کیا جاتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ حدیث کے فن کی تدریس بغیر ان مضامین کے ناقص ہے۔پہلی کوشش تو یہ کی جائے کہ ان مضامین کے بعض تیار شدہ مذکرات نصاب کا حصہ بنائے جائیں خواہ ان کی تدریس ہفتے میں دودن ہی ہو۔اس کے بعد دوسرا بڑا کام ہوم ورک کے ذریعے کیا جائے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ سنن ابی داود یا سنن ترمذی کا استاذ زیر درس دس احادیث کی سندوں کا انتخاب کرے ۔جن کے بعض راوی ثقہ اور بعض غیر ثقہ ہوں ۔اس کے بعد دو دو راوی طلبہ میں تقسم کردیے جائیں اور انھیں مکلف کیا جائے کہ امام مزی،ابن حجر اور امام ذہبی کی کتابوں سے ان کی تفصیلات قلم بند کرکے لائیں۔اس ہوم ورک سے طلبہ کو معلوم ہوگا کہ راوی کا صحیح نام ،کنیت اور اس کی نسبت کیا ہے۔وہ کن کن راویوں سے حدیث بیان کرتا ہے اور کون کون سے راوی اس سے حدیث نقل کرتے ہیں۔اس کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کیا ہیں۔محدثین کی نظر میں الفاظ جرح وتعدیل کی درجہ بندی کیا ہے ۔کس اصطلاح کا مفہوم کیا ہے۔ابتدا میں طلبہ کو یہ ایک مشکل کام معلوم ہوگا لیکن آہستہ آہستہ ان کو اس میں مزہ آنے لگے گا اور ان کی دل چسپی بڑھ جائے گی۔تعلیم کے دوران اگر ہم اتنا ذوق طلبہ میں پیدا کردیں تو پھر انھیں ایک بڑا محدث بننے سے کوئی نہیں روک سکتا بشرطے کہ وہ اپنے اس ذوق کو پروان چڑھاتے رہیں۔
(۵) دارالاقامہ کی علمی وثقافتی سرگرمیاں
دینی مدارس میں عام طور پر جمعرات کو انجمن ہوتی ہے جس میں طلبہ تقریر کی مشق کرتے ہیں ،بعض مدارس میں بورڈ پر آویزاں کیے جانے والے قلمی میگزین بھی طلبہ کی طرف سے تیار کیے جاتے ہیں اور ان کا تحریری وتقریری مقابلہ بھی ہوتا ہے جس میں کامیاب طلبہ کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔طلبہ کی ذہنی نشوونما اور ان کی فکری اٹھان کے لیے یہ تمام سرگرمیاں انتہائی مفید ہیں اور ان کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ اساتذہ کرام کی نگرانی میں اس نظام کو مفید سے مفید تر بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔اس کے علاوہ کھیل کود اور ورزش کے بھی پروگرام کرائے جائیں ،اس سے طلبہ صحت مند بھی رہیں گے اور ان کو صحت کے اصولوں کا علم ہوگا ۔۱۵؍اگست اور ۲۶؍ جنوری کے پروگرام کی اپنی خاص اہمیت ہے ۔اول الذکر تاریخ میں ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی اور ثانی الذکر تاریخ میں جدید ہندوستان کے آئین کا نفاذ ہوا ۔ہندوستان کی تحریک آزادی،انگریزوں کے مظالم کی داستان،اہل وطن کی قربانیاں اور مسلمانوں کا جنگ آزادی میں کردارجیسے کئی موضوعات ہیں جن پر ہمارے طلبہ اردو،ہندی اور انگریزی میں تقریر کرسکتے ہیں اور برادران وطن کو بتاسکتے ہیں کہ اس ملک کے تئیں ہماری قربانیاں کیا ہیں۔ضلع انتظامیہ کے کسی آفیسر کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے ان پروگراموں میں شرکت کی دعوت دی جائے اور قومی پرچم لہرایا جائے اور قومی گیت گائے جائیں ۔دشمنوں نے آج ہمارے اوپر یہ الزام عاید کیا ہے کہ اس ملک کے تئیں ہم وفادار نہیں ہیں۔دینی مدارس میں یہ ثقافتی سرگرمیاں ان کا منہ توڑ جواب ہوں گی۔ہائی کورٹ کے برسرکار یا ریٹائرڈ جج بھی ہمارے مدارس میں آتے جاتے رہیں اور ہم ان سے آئین،عدالتی نظام،جرائم اور ان کی سزاؤں کی تفصیلات سے طلبہ کو واقف کرائیں۔اس سے ہمارے طلبہ کی معلومات میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ اس ملک میں وہ اپنے حقوق وفرائض سے واقف ہوں گے۔اس کے علاوہ طلبہ میں مختلف موضوعات کے تحت کوئز مقابلے کرائے جائیں اور برجستہ تقریر کرنے کی مشق کرائی جائے۔یہ بھی ہماری علمی وثقافتی سرگرمی کا حصہ ہوگا کہ ہم سال میں کم از کم تین بار باہر سے کسی صاحب علم کو دعوت دیں اور وہ طلبہ کے سامنے مختلف موضوعات پر لکچر دیں ۔اس سے طلبہ کو رہنمائی ملے گی اور وہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر ان کے جیسا بننے کی کوشش کریں گے۔

آپ کے تبصرے

3000