بچوں کا ’’سلفی‘‘ ادب

یاسر اسعد

 

بچے کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ اس کا مدار انہی کے مستقبل پر ہوتا ہے۔ ان کے اذہان وقلوب اللہ تعالیٰ کی جانب سے بالکل مجلی ومصفی اور معصوم ہوتے ہیں۔ ان پر جو بھی بات ثبت کردی جائے وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اسی لیے ان کے اندر دین داری کا مادہ پیدا کرنے اور تاحیات دین سے منسلک رکھنے کے لیے ابتدائی طور پر انھیں قرآن حکیم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کم از کم ایک بار قرآن کی تعلیم سے وہ فارغ ہوجاتے ہیں تب انھیں باقاعدہ سلسلہ تعلیم سے جوڑا جاتا ہے۔ اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے والدین کا پرائمری تعلیم کے معاً بعد انھیں حفظ میں لگا دینے کا اقدام بالکل درست ہے۔ بہر حال، بچوں کی اس ذہنی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک کی زعفرانی طاقتوں نے نصاب تعلیم میں ہندو راشٹر کے اقدام پر مبنی تاریخ ساز مواد بھرنے کا جو قدم اٹھایا ہے وہ افسوسناک ہونے کے ساتھ قابل توجہ بھی ہے۔ اس سے ان قوتوں کی ہوشیاری کا اندازہ لگائیے کہ جب مسلمان بچے اپنی اصل تاریخ سے ناواقف ہو کر ہندوستان کی اصل تعمیر وترقی کو ہندووں کا کارنامہ سمجھ بیٹھیں گے تو پھر مستقبل میں ان کی ذہن سازی کی ضرورت انھیں قطعاً نہیں پڑے گی اور وہ بآسانی ان کے دام فریب میں آجائیں گے۔
بات طویل ہوگئی ۔ دراصل مقصد یہ ہے کہ وطن عزیز میں ملکی پیمانے پر اگر مسلم بچوں کے رسالوں کی بات کی جائے تو اس فہرست میں جو مواد ہے وہ بیشتر اردو زبان ہی میں ہے جن کے ذریعے دین کے تعلق سے انھیں حساس بنایا جاسکتا ہے ۔ اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ اردو تو پورے طور پر مسلمانوں کی زبان بھی نہیں رہ گئی ہے۔ بچے تو بچے، نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد سردست اردو سے نابلد وناواقف ہے۔ لہٰذا ان کا پورا رجحان انگریزی، ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کے رسالوں کی طرف ہوتا ہے، جو ایک طریقے سے لادینیت یا پھر غیر اسلامیت کا مظہر ہوتے ہیں، بلکہ بسا اوقات معصوم ذہنوں پر نظریاتی یلغار کا سبب بنتے ہیں۔
یہ تو ہوئی غیر اردو رسالوں کی بات ۔ ہماری اردو زبان کے فی الوقت جو رسائل مہیا ہیں ان میں کس حد تک اسلام کی صحیح ترجمانی موجود ہے، یہ واقعی غور کرنے کا نقطہ ہے۔ اس وقت سب سے اعلیٰ معیار کا رسالہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا ’’بچوں کی دنیا‘‘ ہے۔ یہ دنیا اپنے مشمولات کے اعتبار سے تو واقعی بہت معیاری ہے لیکن اس کا اسلامی مواد بہت حد تک غیر معیاری ہے، جس کا اندازہ ’’عید میلاد النبی‘‘ وغیرہ کے موقع سے شائع شماروں سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’پیام تعلیم‘‘، ’’امنگ‘‘، ’’گل بوٹے‘‘ یا اس جیسے رسالے مجموعی طورپر اسلام کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔
ان تحفظات کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی دعوت کی راہ میں اس نقطے کو بہت زیادہ اہمیت دینی ہے کہ نئی پود کو ’’صحیح اسلام‘‘ سے روشناس کرائیں، مگر ہمارا یہ اقدام انتہائی محتاط اور ہرطرح کے تعصب سے پاک ہونا چاہیے۔ اس راہ میں کرنے کے جو کام ہیں وہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین کے عبرت آموز واقعات کو دلچسپ پیرایے میں بیان کیا جائے، نیز ایمانداری، خلوص، حوصلہ، جرأت، حمیت اورصدق وصفا پر مبنی ہمارے علمائے کرام کے قصص بھی اسی طرز پر ترتیب دیے جائیں۔ زبان سہل سے سہل استعمال کی جائے اور خوبصورت اور سلیس انداز میں انھیں معصوم ذہنوں میں جاگزیں کرنے کی کوشش کی جائے۔ کام بہت زیادہ مشکل نہیں، ضرورت ہے عزم وحوصلہ کی۔ مراجع کی رسائی بھی کوئی مشکل نہیں، خود ہمارے اسلاف کی سیرت پر مبنی کتب خصوصاً بر صغیر کے عظیم مؤرخ مولانا محمد اسحاق بھٹی علیہ الرحمہ کی کتابوں میں اس طرح کے بے شمار مواد مل جائیں گے۔ مزید برآں اسلامی عقائد پر مختصر مکالمے اور ڈرامے لکھے جائیں جن میں ان عقائد کو خصوصی طور سے زیر بحث رکھا جائے جن کی امت کے افراد کے مابین غلط تشریح کی جارہی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کہاں ہے، حضور علیہ السلام کی حیثیت بشر کی ہے یا نور کی، وغیرہ وغیرہ۔
میرے بھائیو! یقین جانیے کہ اگر ہم اس میدان میں پیش قدمی کریں گے تو ہمارے دعوتی کاز کا ایک معتدبہ حصہ بحسن وخوبی پورا ہوجائے گا اور عند اللہ کثیر اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
انعام الحق محمدی

ماشاء مضمون کی عمدگی و گہرائ میں کو کسر نہی .مشورہ بھی بہتر ہے .
لیکن اس کار خیر کی طرف قدم کون بڑھاےگا
یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھیگا