ہندوستانی مسلمانوں کو حکمت عملی بدلنی ہوگی

عزیر احمد

نوٹ: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : (إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ ، وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ)

[رواه أحمد (4987) وأبو داود (3462) وصححه الألباني في صحيح أبي داود]

وقال الإمام مالك رحمه الله: (لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها)


ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کبھی بھی مسلمانوں کو ہندوستان میں اتنی کسمپرسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنی کہ آج کل کررہے ہیں، حالات سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمان آج ہندوستان میں کس مقام پہ کھڑے ہیں، ہر شعبے میں ان کی تعداد گھٹ گئی ہے، پارلیامنٹ، پولیس، بیوروکریسی، ویسے تعداد تو پہلے بھی کبھی ان کی مجموعی آبادی کے اعتبار سے مناسب نہیں رہی ہے، لیکن پھر بھی 2014 الیکشن کے بعد مزید کمی آ گئی ہے، رہی سہی کسر بقیہ صوبوں میں بی.جے.پی کی حکومت آنے سے پوری ہوگئی ہے.

اگر اس وقت پورے ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ چھوٹے عہدوں سے لے کر بڑے عہدوں تک ہر جگہ سنگھ کے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں، ہندوستان کے لیے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہوگی کہ ملک کے سب سے زیادہ معزز اور محترم تینوں اعلی عہدوں پہ بھی انہی کے لوگ فائز ہیں، یہ سب کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کی پوری الگ داستان ہے، ہاں بنیادی بات صرف اتنی سی ہے کہ کل کی وہ تنظیم جس پہ کبھی پابندی عائد تھی اور جسے پبلک ملک مخالف تسلیم کیا کرتی تھی، وہی آج ملک کے سیاہ وسفید کی مالک اور سب سے بڑی نیشنلسٹ پارٹی ہے.

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کا ماحول کافی زہر آلود ہوچکا ہے، یہاں کی فضاؤں میں نفرت گھل چکی ہے، برادران وطن کا آپس میں ایک دوسرے کے تئیں اعتماد اٹھ چکا ہے، اب تو لوگ ٹرینوں میں مرغے کا بھی گوشت لے جاتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں کہ کیا پتہ کب گائے کے گوشت کے نام پہ ان کے ساتھ حادثہ ہوجائے، جانچ کا کیا ہے، وہ تو بعد میں ہوتی ہی رہے گی.

اس طرح کی صورت حال میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ آ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان کیا کریں، کیا الگ سیاسی پارٹی بنالیں، یا پھر جو قومی اور ملکی سطح کی پہلے سے موجود پارٹیاں ہیں انہی میں اپنا مستقبل ڈھونڈنے کی کوشش کریں، سوال کا جواب تو تھوڑا سا مشکل ہے، کیونکہ جتنے لوگ ہیں اتنے ہی ان کے آراء ہیں، اور ہر ایک کے پاس اپنے دلائل ہیں، لیکن جہاں تک میرا ماننا ہے وہ یہ ہے کہ اصل چیز پاور ہے، اور یہ پاور جب تک چھوٹے لیول سے لے کر بڑے لیول تک مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہوگا، مسلمان اسی طرح لاچاری اور مجبوری کی زندگی گزارتے رہیں گے.

ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے پاور کا حصول سیاست کے ذریعہ قدرے مشکل ہے،  کیونکہ جیسے ہی مسلمان میدان میں آتے ہیں، نفرت کا بازار گرم ہوجاتا ہے، فرقہ وارانہ سیاست عروج پہ پہنچ جاتی ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کو نہایت ہی خاموشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ لانگ ٹرم پلاننگ کی جائے، اور اس پلاننگ کا بنیادی تھیم مسلم بچوں کو بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ اور میڈیا میں پہنچانا ہو، اور یہ کام اس وقت تک کبھی نہیں ہوسکتا ہے جب تک مسلمانوں میں ذمہ داری کا شعور بیدار نہیں ہوگا، ذمہ داری کا احساس ہی انسان کو کچھ کرنے پہ آمادہ کرتا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ہر شخص کو ذمہ دار قرار دیا ہے، اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں کل قیامت کے دن سوال کیے جانے کے بارے میں بھی بتلایا ہے، یقینی طور پہ ہندوستان میں اپنی شناخت کو نہ صرف تلاش کرنا بلکہ اس کی بقا کے لیے جد وجہد کرنا بھی تمام مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری (Collective Responsibility) ہے.

یہ بات ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں اصل حکومت بیوروکریٹ ہی چلاتے ہیں، سیاسی چہرے تو صرف مہرے ہوتے ہیں جو وقت وقت پر بدلتے رہتے ہیں، آر.ایس.ایس نے بیوروکریسی پر اپنی پکڑ بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے، ادارے اور انسٹیٹیوشنز قائم کیے، بہترین کوچنگ سینٹرز کی بنیاد رکھی، گراؤنڈ لیول پہ کام کیا، ہماری مسلم جمعتیوں یا تنظیموں کی طرح صرف ہوائی باتیں نہیں کیں، اور آج حالت یہ ہے کہ پولیس، بیوروکریسی اور عدلیہ غرضیکہ ہر جگہ انہی کے افراد بیٹھے ہوئے ہیں، مسلمان کہتے ہی رہ گئے “ان الحکم الا للہ”، کہ صرف اللہ کا ہی حکم چلے گا، بقیہ اس کے سامنے کوئی بھی قانون کوئی بھی دستور نہیں مانا جائے گا، نتیجے کے طور پہ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو لاء (قانون) کی تعلیم دلائی ہی نہیں، یا جس نے تعلیم حاصل کی بھی، معاشرے نے اس سے بے اعتنائی برتی، یہی وجہ ہے کہ مسلمان سپریم کورٹ، ہائی کورٹس یا دیگر نچلی سطح کے کورٹس میں بطور جج بہت کم ہی دکھائی دیتے ہیں، مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ افسوس کی بات اور کیا ہوگی کہ ان کے خود کے پرسنل لاء کا کیس ایک غیر مسلم لڑتا ہے، جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ تیس کروڑ مسلمان مل کے ایک بہترین وکیل بھی پروڈیوس کرنے کے قابل نہیں ہیں، جو خود ان کے ہی بورڈ کا دفاع کرسکے.

بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا جمہوریت کے اہم ستون ہیں، اور جب تک مسلمان ان تینوں ستونوں پہ اپنا قبضہ نہیں جمائیں گے، انھیں ہندوستان میں مضبوطی عطا نہیں ہوگی، اگر مسلمان ان تینوں اداروں پہ قابض ہوجائیں جو ایک طریقے سے پالیسی سازی کا کام انجام دیتے ہیں تو یقیناً مستقبل بڑا خوشگوار ہوسکتا ہے، ورنہ نوشتہ دیوار تو پھر کچھ اور ہی ہوگا.

ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس افراد نہیں ہیں، یا مسلمانوں کے بچے پڑھنے والے نہیں ہیں، مگر یہ ایک بہت ہی تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے جو پڑھنے والے بچے ہیں، یعنی جو محنت سے پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر مڈل کلاس طبقے سے یا بالکل غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں، جن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی ہے کہ وہ بہترین کوچنگ سینٹرز میں ایڈمیشن لے سکیں یا یو.پی.ایس.سی کی تیاری کے لیے کتابیں ہی خرید سکیں، اور پھر گھریلو اور معاشی پریشانیاں اتنی ہوتی ہیں کہ وہ چاہ کر بھی تیاری نہیں کرپاتے ہیں، حالانکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد اور زکوة فاؤنڈیشن وغیرہ ایسے بچوں کے لیے کافی مددگار ہیں، مگر پھر بھی یہ ناکافی ہیں، مسلمانوں کو مزید اسی طرز پہ کام کرنے کی ضرورت ہے، زکوة فاؤنڈیشن مشعل راہ ہے، اسی طرز پہ دیگر قسم کے انسٹیٹیوشنز قائم کرنے اور زکوة کے پیسے کو ایک بہتر مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جو مسلم بچوں کو نہ صرف بیوروکریسی کے لیے تیاری کروائے، بلکہ جیوڈیشری، لاء، میڈیا اور دیگر چیزوں میں بھی اپنے افراد کے داخلے کے لیے کوشش کرے.

یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں، بالکل سیاست میں رہیں، بلکہ قومی دھارے سے جڑ کے بھی رہیں، کیونکہ پولیٹکس بھی ضروری ہے، مگر جس طرح ہر شخص کے لیے کچھ Priorities یعنی “اولویات” ہوتے ہیں، ویسے قوموں کے بھی ہوتے ہیں، جب تک ان Priorities کو ایک بہترین فارم میں آرگنائز نہیں کیا جائے گا، قومیں تنزلی کا شکار ہوتی رہیں گی.

ہندوستان میں مسلم قوم بھی تنزلی کا شکار ہے، اس صورتحال میں اس کے لیے لازمی اور ضروری امر ہے کہ وہ اپنے لیے ایک ایسی اسٹریٹجی تیار کرے جو اس کے لیے لانگ ٹرم میں مفید ثابت ہو، اور یہ اسٹریٹجی اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان تعلیم کے ذریعے ہندوستانی دھارے کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کریں، اور یہ کوشش اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ سیاست ایک بے ہنگم چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں، اس میں ہر پانچ سال پہ تقدیریں بدل جایا کرتی ہیں، جب کہ دیگر اداروں یا محکموں میں ایک مرتبہ داخل ہونے کے بعد پھر رٹائرمنٹ کے ذریعے ہی نکلنا ممکن ہے، ہاں تبادلہ، ٹرانسفر یا کچھ دنوں کے لیے معطلی کی بات الگ ہے.

ایک آخری بات جو کہنی بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تحفظ شریعت یا تحفظ ملک و ملت وغیرہ ناموں سے جو دھرنے اور پروٹسٹ آرگنائز کیے جاتے ہیں ان سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ کہیں نہ کہیں سنگھ ہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں، اس کے بالمقابل میرا ماننا یہ ہے کہ ظالم کا مقابلہ سیکولر فریم ورک کے ذریعے کیا جائے، میں جب رعنا ایوب، رویش کمار، تیستا سیتلواد وغیرہ کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ عدم تشدد ہندوستانیوں کے خمیر میں شامل ہے، حکومتیں اپنے مفاد کے لیے کتنا ہی ظلم کیوں نہ کریں، سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست کے لیے ملک کو کتنا ہی زہر آلود کیوں نہ بنا دیں، مگر ہمیشہ ہندوستان میں ایک قسم کی سول سوسائٹی موجود رہے گی جو ہم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرتی رہے گی، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان آوازوں کو دبنے نہ دیں، ان پر کمزوری کا غلبہ نہ ہونے دیں، بلکہ ان آوازوں میں اپنی آوازیں بھی شامل کریں، اور انصاف کی لڑائی مل کے لڑیں، کیونکہ جب بھی ہم تنہا اپنے حقوق کے لیے آگے آئیں گے تو میڈیا کا ایک سیکشن ایسا بھی ہوگا جو اسے کمیونلائز کرنے کی کوشش کرے گا، اس لیے بہتر ہے کہ ہم ہر لڑائی ان لوگوں کے ساتھ مل کے لڑیں جو ہماری حمایت میں آگے آتے ہیں، یہ لوگ انتہائی تاریک راتوں میں امیدوں کے چراغ ہیں، اور ان چراغوں کی حفاظت کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے.

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
رضوان

بہترین مشورہ ہے…
برادرم عزیراحمد صاحب…
ایک عرض یہ بھی ہے کہ جو حدیث اور امام مالک کا قول آپ نے ابتدا میں ذکر کیا ہے اسی کو مرکزی عنوان بناتے تو اور بہتر ہوتا،
میرا ماننا ہے کہ جبتک ہم اپنے رب کی طرف رجوع نہیں ہوتے حالات میں بہتری نہیں آنی ہے.