لبرلز کو آخر برقعے سے عناد کیوں؟

ریاض الدین مبارک

انگریزی تحریر: ڈاکٹر اسماء انجم خان
اردو ترجمہ: ریاض الدین مبارک


گوہا جی کو اگلی بار  بندیا،  منگل سوتر اور سندور پر بے باکی سے لکھنا چاہیئے!

کیا آپ نے کبھی کوئی لباس ایسا بھی دیکھا ہے جو انسانی جسم کو اپاہج کردیتا ہو، آنتوں کو کاٹ کر باہر کردیتا ہو اور کھوپڑی کھول دیتا ہو؟ رامچندر گوہا جی سے ملیں، جناب کو یقین کامل ہے کہ برقعہ ایسا ضرور کرسکتا ہے وہ بالکل ترشول جیسا ہے۔
“چونکہ برقعہ کوئی ہتھیار نہیں ہوسکتا اس لیے علامتی طور پر وہ ایک ترشول کی مانند ہے جو عقیدے کے سب سے زیادہ ردعمل اور قدامت پرستی کے پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے۔ پبلک میں اس کے استعمال پر اعتراض کرنا عدم تحمل کی بات نہیں بلکہ لبرل ازم اور نجات کی عین علامت ہے۔”
افسوس کی بات ہے کہ گوہا جی اپنے ہم مزاج لبرلز کے مابین، ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ڈسپوزایبلٹی پر ہرش مندر کی سونیا کو اسی طرح جواب دے رہے تھے۔
بعد میں اپنے ٹویٹس کی ایک سیریز میں، انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا:
“گھر میں یا خاندان کے افراد کے سامنے برقعہ پہننے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سیاسی ریلیوں میں برقعے کے ساتھ باہر نکلنا واقعی ایک مسئلہ ہے۔ حجاب بہت حد تک قابل قبول ہے، یہ پگڑی یا وبھوتی کی طرح ہے۔ یہاں دائیں یا بائیں بازو کے دقیانوسی تصورات سے پرے تنقید کا دقیق فرق ہے۔”
برقعہ گھر سے باہر استعمال کیا جاتا ہے، گھروں میں نہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ در حقیقت مسٹر گوہا نے ٹھیک سے اپنا ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے سیاہ برقعہ پوش خواتین سے کبھی ملاقات بھی کی ہے، ان سے رابطہ بھی کیا ہے یا وہ ہمیں دیکھتے ہی کانپنے لگتے ہیں؟ اگر انھوں نے ایسا کیا ہوتا تو انھیں اس بات کا علم ضرور ہوتا کہ حجاب والیاں خود اعتمادی سے پر وہ ذہین عورتیں ہیں جو اپنے اندر ظریفانہ حس بھی رکھتی ہیں۔ لیکن وہ تو ہمارے برقعے سے ہی ڈر جاتے ہیں! اس طرح گوہا جی نے اسے ترشول سے مشابہت دے کر میرے ہی پوائنٹ کو تقویت دی ہے۔
جی ہاں، وہ ڈرتے ہیں۔ آخر اس کے وجوہات کیا ہیں؟ اس غیر ضروری اور بے وجہ خوف کی انھیں وضاحت کرنی چاہیے۔ خوبصورت مفہوم کے لبادے میں لپٹا ہوا مسلمانوں کے خلاف لبرلز کا متعصبانہ مشورہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مسلم عورت کے جسم پر برقعہ دیکھ کر یہ پاگل ہو جاتے ہیں۔
جناب میرا برقعہ بے ضرر ہے۔ یہ نہ مار سکتا ہے اور نہ ہی اپاہج کرسکتا ہے۔ یہ تو روزمرہ کا صرف ایک لباس ہے! دیکھو، ایک نہایت معمولی چیز کو اس طرح کی وضاحت درپیش ہے، پھر بھی، کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آخر برقعہ پوش عورتوں کا ایک سمندر لبرلز کو کیوں ڈرا رہا ہے؟
کیا انھیں سیاہ پردہ کی تہ بہ تہ لہروں کے پیچھے کوئی طاقت دکھ رہی ہے؟ کیا وہ اس طرح حاشیہ پر پڑی جماعت کے متحد ہونے اور اتنی بڑی تعداد میں ان کے یکجٹ ہونے کی سوچ سے بے اطمینانی محسوس کر رہے ہیں؟
میں نے برقعے کے ساتھ اور اس کے بغیر بھی سپیکٹرم کے دونوں سرے کو بغور دیکھا ہے لہذا دونوں کا فرق واضح کرنا میرے لیے نہایت آسان ہے۔
کچھ معروف یونیورسٹیوں میں میرے ساتھ جو روکاوٹ پیش آئی اس کی وجہ صرف میرا برقعہ تھا۔ ایک مقام پر، جب میں نے ہر تعلیمی مقابلہ جیت لیا تو ایک رعونت آمیز ہوشیار جج نے نفرت سے کہا: “مجھے یقین نہیں ہورہا ہے کہ یہ کمال آپ کا ہے!”
صرف ایک برقعہ پوش فاتح کا حوالہ واضح تھا۔ اس مبینہ تعصب پر اس شخص کو سخت حیرت ہوئی کہ وہ کس طرح ایک اسمارٹ اور ذہین ہو سکتی ہے؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے صرف ایک کپڑے کے ٹکڑے کی وجہ سے میری اہمیت گھٹا دی۔ ایک دوسرے کانفرنس میں جب پریزنٹیشن کے لیے میں آڈیٹوریم میں کھڑی ہوئی تو ایک بزرگ جج نے مجھے حقارت سے دیکھتے ہوئے غضبناک لہجے میں کہا: “مجھے برقعے سے سخت نفرت ہے، مجھے اس سے گھن آتی ہے۔ ایک برقعہ پوش عورت سے زیادہ قابل نفرت اور گھناؤنی شے میری نگاہ میں کچھ بھی نہیں۔ میں اسے بالکل پسند نہیں کرتا اور میں اس سے دور رہتا ہوں۔”
آپ تصور کر سکتے ہیں کہ میرے اوپر کیا بیتی ہوگی جبکہ میں اسٹیج پر تھی اور سب کی نگاہیں مجھ پر تھیں۔ بعد میں انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے ایسی کارکردگی کبھی نہیں دیکھی تھی، وہ بھی ایک … آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا ایک حجابی سے! کانفرنس میں میرا ایک ساتھی جو لبرل بائیں محاذ کا کارکن تھا اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا، “آپ جانتی ہیں، میں آپ کے گروپ اور برقعے کی پرواہ نہیں کرتا” ان کا اشارہ میرے سر پر اڑ رہے حجاب کے خرقے کی طرف تھا۔ میں زیر لب مسکرائی کہ واقعی اگر اسے پرواہ نہیں تھی تو اسے یہ بات کہنے کی ضرورت کیا تھی؟
برقعہ کے خلاف تعصب جمہوری انداز میں تمام شعبوں اور سماج کی ساری جگہوں پر پھیلا دیا گیا ہے۔ ان کی تکلیف اکثر قابل دید ہوتی ہے اور اب میں نے بھی اس سے لطف اندوز ہونا شروع کردیا ہے۔ پچھلے بارہ سالوں سے اب تک جب سے میں نے برقعہ پہننا شروع کیا کافی سخت جان ہوچکی ہوں، حقیقت میں، مجھے اس بات پر سخت حیرانی ہوگی اگر میں اپنے برقعے کے بارے میں لوگوں کی نفرت اور جگ ہنسائی کا سامنا نہ کروں۔
گوہا جی کا اعتراض اگر شناختی سیاست کی بنیاد پر ہے تو پھر آگے انھیں بندیا، منگل سوتر، سندور، قشقہ اور مردوں کی تلک دھاری پیشانیوں پر بھی لکھنا چاہیے۔ لیکن تھوڑا سا رک کر سوچیں کہ ہم ان چیزوں پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟ کیا یہ سب ہماری ہندو بہنوں کی روزمرہ زندگی کا مذہبی حصہ نہیں ہیں؟ تو پھر برقعہ پہن کر کام کرنے یا ریلی میں جانے میں کیا خرابی ہے، آخر کار یہ تو ہمارے مذہب کا حصہ ہے؟ برقعہ ایک مسلم خاتون  کا ذاتی مسئلہ ہے جیسے بندیا ایک ہندو عورت کا ہے قدیم زمانے سے!
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر پبلک میں بندیا لگا کر نکلنا غلط سمجھا جانے لگے تو ہماری ہندو بہنیں کتنی مایوس ہوں گی! گھر سے باہر ہمارے روزمرہ کے لباس پر لوگوں کا اعتراض دیکھ کر ہم مسلم عورتیں ہکّا بکا ہوجاتی ہیں اور برقعے کو ترشول کے مشابہ قرار دینے کے نظریے پر ہمیں سخت دھچکا لگتا ہے! ایک اور بات میں اپنی تمام بے حجابی بہنوں سے کہنے کی اجازت چاہتی ہوں جو اسکارف کے ساتھ اپنی تصویریں پوسٹ کر رہی ہیں کہ حجاب اپنے خالق کو خوش کرنے کے لیے پہنا جاتا ہے نا کہ کسی خاص مورخ کو زچ کرنے کے لیے!
مزے کی بات ہے کہ گوہا جی نے 1927 میں  لکھے گئے مہاتما گاندھی کے ایک اقتباس کو ٹویٹ کیا ہے: “جزوی طور پر یہ ہماری اپنی کمزوری، پس وپیش، تنگ نظری اور بے چینی قرار دی جائے گی۔ آئیے ہم ایک طاقتور کوشش کے ساتھ پردے کو پھاڑ ڈالیں۔”
مہاتما گاندھی کا جو مقام تھا ہم اس کا پورا احترام کرتے ہیں لیکن اپنے لباس میں عمومی طور پر ہم اپنے خالق حقیقی کے سوا کسی اور کا حکم نہیں مانتے۔ پردہ ان دنوں عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر آزادانہ موومنٹ پر بھی پابندی عائد کرتا تھا۔ سوال ہے کیا مہاتما پردے کی اس روایت کو ختم کرنا چاہتے تھے جس کی رو سے عورت نہ گھر سے باہر نکل سکتی تھی، نہ پڑھ سکتی تھی، نہ کام کرسکتی تھی اور نہ ہی اپنی زندگی کے دوسرے فیصلے لے سکتی تھی؟ سچ بات تو یہ ہے کہ برقعہ ہم پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا ہے۔ خواتین کو ڈگری حاصل کرنے سے نہیں روکتا، نہ ہی کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ ہی اپنی زندگی کے عام معاملات میں فیصلہ لینے سے منع کرتا ہے۔ اس کے بر عکس یہ تعلیم حاصل کرنے اور کام کے لیے بیرونی دنیا تک آسان رسائی حاصل کرنے میں خواتین کی مدد کرتا ہے۔ اور ہاں۔۔ ہمارا یہ برقعہ تو  نسیم جانفزا کا احساس دلا کر ہمارے وجود کی دل نوازی بھی کرتا ہے!
یقین نہ آئے تو کوشش کرکے آزما لو!
لبرلز کا یہ موقف اختیار کرنا کہ برقعہ عورت کی اپنی پسند کا مسئلہ نہیں ہوسکتا، صرف جنونیت ہے۔ میرا یہ بڑبولاپن، برقعے کے خلاف گوہا جی کی سخت تنقید کے لیے ہے۔ ان کا خوف صاف دکھ رہا ہے۔ یہ خوف اونچی ذات کے طبقے کا ہے جو ہمارے معاشرے میں حاشیے پر موجود گروہ کی اجتماعیت اور نا انصافی کے خلاف اٹھتے قدم کا نتیجہ ہے جو عملی طور پر دن بدن مستحکم ہورہا ہے۔ مسٹر گوہا جو خوف آپ نے ہماری جماعت کے اطراف پیدا کیا ہے وہ صرف آپ کے خیالات کی من گھڑت اور سوَرنوں کے نجات دہندہ کمپلیکس کی علامت ہے۔
براہ کرم آپ زمین پر اتر کر دیکھیں! ایک سادہ لباس کو عجیب الخلقت بنانا پھر اسے سیاست کا رنگ دینا، آپ کے گہرے تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں مشورہ دینے کے بجائے کچھ اور کریں، مسٹر گوہا اپنے لوگوں کو جاکر بتائیں کہ وہ ہمارا دسترخوان دیکھ کر ہمیں زدوکوب کرکے قتل نہ کریں، ہمارے لباس کی وجہ سے ہمیں پریشان نہ کریں۔ آپ انھیں چیخ چیخ کر بتائیں کہ وہ ان شیطانی حرکتوں کی مذمت کریں۔
مسلمان دنیا بھر میں پنجہ آزمائی کے لیے عمدہ ترین تختۂ مشق بن چکا ہے۔
یونانی قصہ ہے کہ موت کو دھوکہ دینے کی وجہ سے ایفرا کے یونانی بادشاہ سیسیفیوس کو ھادس میں دائمی سزا دی گئی تھی کہ وہ وادی سے ایک چٹان اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے جائے اور وہاں سے اسے لڑھکا دے اور یہی عمل وہ بار بار ابد تک کرتا رہے۔ اگرچہ یہ ایک بے مقصد کام تھا لیکن اسی بہانے وہ کچھ کرتے ہوئے اطمینان محسوس کرتا تھا جبکہ ہمارے پاس تو وہ بھی نہیں۔ ہمارے سیسیفیوس کو تو ایک کھڑی چٹان والی پہاڑی پر الٹا لٹکا دیا گیا ہے، اس کے ہاتھوں کو پشت پر باندھ دیا گیا ہے، آنکھ اور منہ پر پٹی باندھ دی گئی ہے تاکہ کچھ لوگ یہ کہہ سکیں کہ وہ زندہ ہے۔ ہاں لیکن وہ لات مار رہا ہے؟
کسی خواب میں بھی نہیں
آخر میں موجودہ مؤرخ اور اس جیسے تمام لوگوں سے میرا ایک سوال ہے کہ اگر ہم اپنا برقعہ اتار کر پھینک دیں تو کیا ہمارے خلاف بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک ختم ہوجائے گا؟ کیا فسادات کے دوران ہندو مرد ہماری آبرو ریزی سے رک جائیں گے؟ ہم اگر اپنا برقعہ جلا ڈالیں تو کیا حکومتیں ہمیں تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن دینے کے لیے تیار ہیں؟
ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ اسے ہم نے اپنی مرضی سے چنا ہے۔ ہمارے یہ خوبصورت پردے جو نہ صرف ہمیں تکمیل کا سامان مہیا کرتے ہیں بلکہ ہمیں ایک منفرد امتیازی شناخت بھی دیتے ہیں۔ یقیناً میری غیر حجابی بہنوں کے لیے جو اسے نہیں پہنتی ہیں، اب بھی گنجائش ہے کہ ہم سب مل کر ایک ساتھ تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ان سورن لبرلز یعنی اونچی ذات والوں سے روایت واپس لی جائے اور اپنے مقدس تصورات کو مسخ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہم اپنے ایمان، عقائد اور عبادات کے بارے میں سوالات کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ایک صحت مند تعمیری مباحثے کے لیے کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں لیکن ہماری سرپرستی کرنا، برقعہ اوڑھنے کی وجہ سے ہمیں مظلوم سمجھنا اور اس سے پیچھا چھڑانے کا مطالبہ کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
برقعہ ایک اسلامی علامت ہے جو دائیں اور بائیں دونوں بازؤوں کو متحد رکھنے کا امتیازی شان رکھتا ہے اور اس برقعے کے تئیں ان لوگوں کی دیرینہ نفرت اور ان کی اسلامفوبیا کے مقابل میں کھڑا رہتا ہے۔
مہاتما کے لفظوں کی ہرکاری کرتے ہوئے میں دعاگو ہوں:
ہے رام! رامچندر کو سمّتی دے بھگوان!

آپ کے تبصرے

3000