سیرت نبوی کی روشنی میں ہندی مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل

کاشف شکیل

تلخیص: کاشف شکیل
(مؤرخہ 14/1/2018 بموقع ختم نبوت کانفرنس مہسلہ فضیلۃ الشیخ شیرخان جمیل احمد عمری حفظہ اللہ برطانیہ کے خطاب کی تلخیص)


سیرت پر ایک نظر:
فرانس کے ایک مشہور فلسفی Voltaire نے تاریخ انسانی کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک قاعدہ کلیہ پیش کیا کہ  “No one is a hero to his valet”
یعنی کوئی بھی شخص اپنے قریبی لوگوں میں ہیرو نہیں بن سکتا، اس لیےکہ اس کے قریبی لوگ اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں سے بھی واقف ہوجاتے ہیں، ایک انسان باہر کی زندگی میں اچھی پوشاک، عمدہ وضع قطع اور بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرسکتا ہے جبکہ چہار دیواری کے اندر گھر میں رہنے والے اس کے خادم و ملازم، بیوی اور عزیز واقارب اس کی تنہائی کی خرابیوں، گناہوں اور برائیوں سے آگاہ رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ” (ترمذي:3895)

(تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو)
لیکن ایک دوسرا فلسفی سوارن سمتھ والٹئیر سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ممکن ہے یہ قاعدہ کلیہ دنیا کے دوسرے تمام انسانوں پر فٹ آئے لیکن ایک شخصیت ایسی ہے جس پر یہ قاعدہ کلیہ فٹ نہیں ہوتا ہے وہ شخصیت محمد (صلی الله عليه وسلم ) کی ذات گرامی ہے۔ کیونکہ جو بھی شخص آپ سے دور تھا تو ممکن ہے کہ وہ آپ سے بدظن ہو مگر جب وہ آپ کے قریب آیا تو وه نہ صرف آپ سے متاثر ہوا بلکہ آپ کا جاں نثار بن گیا۔
یہی وجہ ہے کہ مکہ کے لوگ آپ کو امین وصادق کہہ کر پکارتے تھے، آپ کی نبوت سے قبل کی زندگی اس قدر شفاف تھی کہ آپ نے اس کو اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا:

قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ  (10:16يونس)

وقت کی مالدار ترین خاتون خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی امانت و دیانت اور حسن اخلاق وعمل کو دیکھ کر خود آپ کو پیغام نکاح بھیجا اور بصد خوشی آپ کی زوجہ بن گئیں۔ نیز اول وحی کے وقت جب آپ گھبرائے تو اسی جانثار بیوی (خدیجہ رضی اللہ عنہا ) نے آپ کو آپ کے اخلاق و سیرت کا واسطہ و حوالہ دے کر آپ کی ڈھارس بندھائی:

“فَوَاللَّهِ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ،وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ. “

اس میں آپ کی صلہ رحمی، صداقت، غرباء پروری، غرباء اور کمزوروں کے تعاون، مہمان نوازی اور نیکی کے کاموں میں بھرپور حصہ لینے کا ذکر ہے۔
زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض آپ کے اخلاق و کردار اور معمولات زندگی کو دیکھ کر اپنے ماں باپ ، عزیز و اقارب کے مقابلے میں آپ کی معیت اور صحبت کو اختیار کیا نیز غلامی کو آزادی پر ترجیح دی۔
آپ کے دیرینہ دوست اور ساتھی ابوبکر صدیق رضی الله تعالى عنه کو جب یہ بتایا گیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے راتوں رات مکہ سے بیت المقدس جانے پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر ( معراج ) کر آنے کا دعوی کیا ہے تو آپ نے بلا توقف اس کو مان لیا۔
یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال جب تک آپ سے دور تھے، آپ سے آپ کے دین سے اور آپ کے شہر سے نفرت کرتے تھے مگر جب تین دن تک مسجد نبوی میں قید ہوکر انھوں نے بالکل قریب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کے دین ،اخلاق، محاسن، اوصاف، خصائل، خوبیوں اور اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کے معاملے کو دیکھا تو ان کی ساری نفرت محبت میں تبدیل ہوگئی اور ان کے نزدیک اسلام، مدینہ اور آپ کی ذات سب سے زیادہ محبوب بن گئی۔ (بخاری 4372)
غورث بن حارث جب نبی صلی اللہ وسلم کو قتل کرنے آیا تو آپ کی جان بخشی، حسن سلوک اور اخلاق سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنی قوم میں جا کر آپ کے تعلق سے یہ گواہی دی کہ

“قَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ” (مسند احمد 14929)

یعنی میں کائنات کے سب سے بہترین شخص کے پاس سے ہو کر آ رہا ہوں۔
اللہ تعالی نے اسی لیے آپ کے تعلق سے قرآن میں “إنك لعلى خلق عظيم” (68:4 القلم) کہہ کر آپ کے اخلاق کی عظمت پر مہر لگائی۔
شیخ شیر خان جمیل احمد العمری نے اپنے خطاب میں آپ صلى الله عليه وسلم کی عملی زندگی کے یہ چند اہم واقعات (سیرت) کو بطور تمہید اور مقدمہ کے پیش کرکے ہندی مسلمانوں کی خدمت میں پرسوز انداز میں ایک “لائحہ عمل” پیش کیا :

سیرت کی روشنی میں ہندی مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل:
(۱) سب سے پہلے آپ اپنی سیرت، کردار اور اخلاق کو نبوی طرز پر مضبوط بنا کر اپنی ذات کو مستحکم اور پر اثر بنائیں، تاکہ لوگ آپ کے بیان سے قبل ہی آپ کی ذات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
(۲)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (66:6التحريم)

کے مطابق آپ اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے اہل وعیال، سوسائٹی اور سماج کی بھی اصلاح کریں۔ سماج میں ہورہے جرائم سے چشم پوشی کرنے کے بجائے اس کو ریفارم کریں۔ ہر گھر کا سربراہ اگر اپنے گھرانے کے سدھار پر محنت کرے تو وہ نہ صرف معاشرے کی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالتا ہے بلکہ شہر اور ملک کو بہترین شہری بھی فراہم کرتا ہے۔
(۳) اپنے شہر اور صوبے کے محکمہ پولیس (جو ملک میں امن و امان، بھائی چارگی اور آئین و قانون کی رکھوالی کی ذمہ داری نبھاتا ہے ) کو اپنی مجلسوں، مدرسوں، مسجدوں نیز اپنے خطبات اور دروس میں بھی مدعو کریں تاکہ ان کو پتہ چلے کہ جرائم  کی روک تھام  اور بہترین شہری Produce کرنےکے سلسلے میں پولیس کی چوکیاں جو کام کرتی ہیں وہی کام مسلمان اس سے کہیں زیادہ منظم انداز میں تسلسل کے ساتھ کرتے ہیں۔
(۴) ہمارا معاشرہ Multi-Faith اور Multicultural معاشرہ ہے، لہذا بین المذاہب والمسالک رابطہ رکھیں، خود کو معاشرے سے الگ تھلک نہ رکھیں، تاکہ لوگوں کو یہ بدگمانی نہ ہو کہ آپ کا کوئی Hidden  Agenda ہے، پھر آپ جب لوگوں سے ملیں گے تو وہ آپ کے اخلاق اور عادات و اطوار سے واقف ہوں گے، آپ کی سیرت، معاملات، علم و ہنر حتی کہ آپ کے دین سے بھی واقف ہوجائیں گے۔ اور اگر کہیں آپ کے خلاف کوئی منفی پروپگنڈا ہورہا ہو تو وہ خود آگے بڑھ کر آپ کی غیر موجودگی میں بھی آپ کا بھرپور دفاع کریں گے۔
(۵) حکمت، موعظت اور جدال احسن کے ذریعہ دعوتِ دین کا فريضہ انجام دیں۔ آپ اپنی بات کو دوسروں پر طعن و تشنیع کے بغیر مثبت اور سائنٹیفک انداز میں پیش کریں۔
(٦) اردو کے علاوہ بھی ہر زبان اور ہر قسم کے میڈیا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اس پر خرچ کریں تاکہ آپ اور آپ کے دین کے خلاف جو غلط پروپیگنڈہ ہوتا ہے اس کا تدارک ہو۔ آج کی اشد ضرورت ہے کہ جماعتیں، تنظیمیں اور تعلیمی ادارے ذہین افراد کو باضابطہ ٹریننگ کے بعد مساجد کے ائمہ کی طرح با تنخواہ میڈیا میں بھی تعین کریں تاکہ وہ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا دستور زمانہ کے حساب سے جواب دے سکیں۔
(۷) سماجی و رفاہی کاموں میں بھرپور شریک ہوں، انسانیت کی بنیاد پر سب کی خدمت کریں، اہل وطن کو عملی طور پر بتائیں کہ اسلام نے خدمت خلق کو بہت اہمیت دی ہے۔
(۸) ملک کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر قوم کے تعلیمی معیار کو بلند کریں، اپنے اداروں میں بلا تفریق مذہب ماہرین و ناظمین تعلیم کو بلائیں اور تعلیمی میدان میں اپنے رول کو اجاگر کریں اور ان کی Practice اور تجربے سے بھی بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ قوم کے بچوں کی اعلی تعلیم کا انتظام کرنے کے عمل کو اپنے فرائض میں شامل کریں۔
(۹) کسی بھی حال میں ملک کے Law & Order کو آپ اپنے ہاتھ میں نہ لیں، اسلام میں شخصی جہاد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ قانونی چارہ جوئی کا سہارا لیں اور اس سلسلے کی باریکیوں سے واقفیت حاصل کریں۔ محکمہ پولیس کو اعتماد میں لیں اور ان پر بھروسہ کریں، یاد رکھیں محکمہ پولیس میں اپنے فرض منصبی کو کما حقہ ادا کرنے والے بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ان سے راہ ورسم بڑھائیں اور ان سے مل کر اپنے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ دونوں کو مل کر بے اعتمادی اور جانبداری کی فضا کو ختم کرنےکی کوشش کریں۔
(۱۰) اسلام امن کا مذہب اور دین رحمت ہے لہذا آپ بھی امن و رحمت کے پیغامبر بنیں۔ اپنے مخالفین اور دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کریں نیز ان کی رشد و ہدایت کے لیے دعاؤں اور مناجات کا سہارا بھی لیں۔۔۔۔۔۔۔

وما یلقاھا الا الذين صبروا وما يلقاها الا ذو حظ عظيم

آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
******-

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

محمد عمر سلفی

جزاک اللہ خیرا
بہت عمدہ نصیحت

حافظ محمد أسلم

ماشاءالله