ماہ صیام اور قرآن

ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری

قرآن مجید دو نوں عالم کے پالنہار، قیوم السماوات والارض کا آخری کلام ہے۔ یہ وہ مقدس کتاب ہے جو نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور معجزہ نازل ہوئی ہے اور آپ کی نبوت کی صداقت کی بیّن دلیل اور برہان ہے۔جس طرح اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات اقدس ہر شئے سے پاک اور اعلی وارفع ہے اسی طرح اس کا کلام معجز بھی ہر کلام سے ارفع واعلی ہے۔ یہ رفعت وبلندی اور علو ہر ناحیے اور زاویے سے ہے،خواہ نظم ونثر کا زاویہ ہو، یا الفاظ وتراکیب کا زاویہ ہو، یا تلمیحات وتشبیہات اور استعارے وکنایے کا زاویہ ہو۔ ہر اعتبار سے کلام ربانی کو تفوق اور برتری حاصل ہے۔ قرآن کریم نے جس طرح معانی اور مفاہیم اور رموز وحکم کا لباس پہنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، اسی لیے کوئی کتاب اور صحیفے اس کی ہمسری اور مشابہت نہیں کر سکتے۔ انہی اسرار ورموز کی اعلی بیانی، الفاظ وسلاست کی روانی، معانی کی گیرائی اور ادب وفن کی گہرائی کی وجہ سے قرآن نے اہل زبان کو تحدی اور چیلنج کیا ہے کہ اگر تمام انس وجن اکٹھا ہوکر اس قرآن جیسا لانے کی سعی کریں تو کبھی بھی اس جیسا نہیں لا سکیں گے چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
جس طرح ذات ربانی کے کمالات وامتیازات اور اس کی ملوکیت ومشیت میں کوئی شریک وسہیم نہیں ،اسی طرح قرآن مقدس کے کمال وامتیازمیں کوئی مثیل نہیں اور زمانہ گواہ ہے کہ چودہ صدی گزرگئی مگر کوئی شخص اس جیسا عظیم المرتبت کلام نہیں لا سکا۔اگر کسی نے لانے کی جسارت کی بھی تو قرآنی فصاحت وبلاغت اور سلاست وروانی اس کلام میں مفقود اور عنقانظر آتی ہے۔
قرآن کریم رب العالمین کی طرف سے امت محمدیہ کے لیے لازوال پیغام ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا گہوارہ اور علوم ومعارف کا گنجینہ ہے۔ ادب وبلاغت، زبان وبیان کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ تجربات ومشاہدات کا محور ہے۔ سلیس اسلوب وانداز کا مرکز ہے۔
قارئین کرام! ممکن ہے کہ یہ چند سطریں جس وقت آپ پڑھ رہے ہوں رمضان کا مقدس مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہو یا سایہ فگن ہونے میں چند دن رہ گئے ہوں، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دین قیم کے اصول وضابطے کی شکل میں موجود قرآن کریم کا رمضان سے گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَان}(البقرہ: ۱۸۴)رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والا اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشادہے:
{اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِo لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ ألْفِ شَھْرٍ}(القدر: ۱)
ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا ہے۔لیلۃ القدر(کی عبادت) ایک ہزار رات (کی عبادت) سے بہتر ہے۔
ان دو آیات میں ماہ صیام کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے جو دین حق کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اورحق وباطل اور ہدایت وگمراہی کو واضح کرتا ہے۔ نیک بختوں اور بد بختوں کی نشانیاں اور پھر ان کے انجام کو بیان کرتا ہے۔
یہ بھی نہایت لطیف بات ہے کہ تمام آسمانی کتابیں اسی ماہ مقدس میں نازل ہوئی ہیں۔ صحائف ابراہیمی، تورات، زبور اور انجیل وغیرہ آسمانی کتابیں بیک وقت نازل ہوئی ہیں اور قرآن کریم ماہ رمضان کی لیلۃ القدر میں سمائے دنیا تک نازل ہوا اور بیت العزہ میں رکھ دیا گیا۔ پھر بتدریج حسن ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر اس کا نزول ہوتا رہا۔
یہ آیت کریمہ ہمیں تفکر وتدبر کی دعوت دیتی ہے کہ ماہ قرآن میں جن اعمال صالحۃ کا بکثرت اہتمام ہونا چاہیے ان میں سب سے اہم عمل تلاوت قرآن مجید ہے کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں جہاں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت ذکر کی ہے وہاں اس کے ساتھ رمضان کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ذکر کی ہے کہ اس ماہ میں قرآن کا نزول ہوا ہے ۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں تلاوت قرآن کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے اور ہررات  جبریل امین جن کے واسطے سے قرآن قلب اطہر پر نازل ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدارست اور دور کرتے تھے، پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتلایا کہ وہ جبریل امین کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ وفات کے سال آپ نے دو مرتبہ قرآن کا دور کیا(صحیح بخاری: ۴۷۱۲)یہ حدیث دلیل ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن پڑھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، قرآن کا دور کرنا اور قرآن کا دور کرنے کے لیے جمع ہونا اور اپنے سے زیادہ قرآن یاد رکھنے والے کو قرآن سنانا مستحب ہے اور مستحسن عمل ہے یہاں یہ واضح ہو کہ قرآن سننے سنانے کا دوررات کو ہوا کرتا تھا کیونکہ رات میں انسان کی مصروفیت کم ہوتی ہے۔ ہمت مجتمع ہوتی ہے اور وقت پرسکون ہوتا ہے۔ اشغال واعمال کی انجام دہی سے دل مطمئن ہوجا تا ہے اس لیے ایسے وقت میں قرآن پڑھنا انسب ہے اور دل ودماغ پر قرآن کے حسین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
{إنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ھِی أشَدُّ وَطْئاً وَأقْوَمُ قِیْلاً}(مزمل: ۶)
بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے اور ذکر الہی کے لائق ہے۔
حافظ سیوطی نے مشہور ادیب جاحظ سے اس آیت کا مفہوم یہ نقل کیا ہے کہ{نَاشِئَۃَ اللَّیْل}سے مراد وہ معانی ومطالب ہیں جو تہجد کی نامز (؟)میں قرآن کی تلاوت سے دل پر منکشف ہوتے ہیں۔ وہ مطالب ومعانی زیادہ صحیح ہوتے ہیں اور ان کا اثر آدمی پر زیادہ واضح ہوتا ہے اسی لیے سلف صالحین کی ایک جماعت قرآن کی بکثرت تلاوت کیا کرتی تھی۔ تفکر وتدبر کیا کرتی تھی اور فرمان الہی {لِیَدَّبَّرُوْا آیَاتِہِ}(ص: ۲۹)پر عمل کرتی تھی۔ بعض سلف صالحین اس کثرت سے تلاوت میں مصروف رہتے تھے کہ تین دن میں قرآن ختم کردیتے تھے۔ بعض سات دنوں میں ختم کر لیا کرتے تھے جن میں قتادہ رحمہ اللہ شامل ہیں اور بعض دس دنوں میں ختم کرتے تھے جن میں ابو رجا عطاردی شامل ہیں۔ امام نخعی اخیر عشرہ میں خاص طور سے قرآن ختم کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت زہری کہتے ہیں کہ ماہ صیام تلاوت قرآن اور کھانا کھلانے کا نام ہے اورجب ماہ رمضان کا ورود ہوتا ہے تو امام مالک رحمہ اللہ حدیث کا مطالعہ اور اور محدثین کی مجالس چھوڑ کر قرآن کی تلاوت میں منہمک ہوجاتے تھے۔ یہی حال امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا بھی تھا۔
لیکن یہ تلاوت آج کے حفاظ کرام کی تلاوت کی طرح نہیں رہتی تھی جس میں صرف {یعلمون} اور{ تعلمون} ہی سنائی دیتا ہو اور بقیہ حروف گول ہوجاتے ہوں، بلکہ{وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً}کی عملی تصویر تھی۔ ہمارے اسلاف کرام ایسا کبھی جلدی نہیں کرتے تھے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے آداب قرآن میں ذکر کیا ہے۔ شاید آپ حیص وبیص اور شش وپنج میں ہوں کہ اس زمانے میں مصروفیت کم ہوتی تھی اس لیے کثرت سے تلاوت کا موقع ہاتھ لگ جاتا تھا، نہیں ایسا نہیں ہے، ہر گز نہیں ہے، بلکہ آیئے میں عصر حاضر کے اللہ والوں کا واقعہ بیان کروں کہ یہ توفیق باری کی عنایت خاص ہوتی ہے اور اس کا کرم ہوتا ہے اور جو اسی کی طرف لگا رہتا ہے تو اسی کو توفیق ہوتی ہے۔
میں آپ کو آپ کے علاقے کے ایک نامور عالم کا حال سناتا ہوں کہ جو ایک متدین عالم تھے جو ہمیشہ پنج وقتہ نمازوں میں امامت کرتے تھے۔ سردی ہو یا گرمی، دھوپ ہو یا بارش، مسجد میں ہی نماز ادا کرنے کے لیے جایا کرتے تھے اورنماز تہجد کی پابندی کرتے تھے۔ خاکساری اور تواضع کا یہ عالم تھا کہ اپنا مکان پختہ بنانے کا خیال کبھی حاشیہ ذہن میں نہ لائے۔ خام سفالہ پوش مکان میں گوشہ نشین رہتے تھے۔ رمضان ہو یا غیر رمضان قرآن کی روزانہ تلاوت کرتے تھے۔ تین دن میں قرآن ختم کردینا ان کا معمول تھا۔ زہد وورع حد درجہ تھا۔ کیا آپ اس عالم دین کا نام جاننا چاہتے ہیں ؟ دنیا ان کو ’’ممتاز علی ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کے تلمیذ رشیدہیں۔ ان کا محل اور مسکن کرتھی ڈیہہ سدھارتھ نگر ہے۔ اللہ اللہ! یہ ہمارے اسلاف کرام تھے جو رمضان میں ہی نہیں بلکہ غیر رمضان میں بھی تین دنوں میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے تو رمضان میں ان کا کیا حال رہتا ہوگا؟ خود اندازہ لگا لیجیے۔ بہت صاف اور واضح بات ہے۔یہی لگن اور یہی جذبہ رمضان میں ہمارے اندر ہونا چاہیے تاکہ ہماری زندگی سلف صالحین کی زندگی کے پرتو اور مصداق ہو۔

آپ کے تبصرے

3000