ماہ رمضان کے روزوں کی فضیلت

رفیق احمد رئیس سلفی

ڈاکٹر عبدالرزاق البدر
ترجمہ:رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)

روزہ بڑی عبادتوں میں سے ایک ہے ،اسی طرح وہ اطاعت الٰہی کےبڑے مہتم بالشان کاموں سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی فضیلت اور عظمت کو قرآن وحدیث میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ذیل میں روزوں کے بعض فضائل کا ذکر کیا جارہا ہے:
(1) اللہ تعالیٰ نے روزے تمام امتوں پر فرض کیے ہیں اور روزوں کو ان کی شریعت کا حصہ بنایا ہے۔چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (1)
“اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو”۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ اگرروزہ ایک عظیم عبادت نہ ہوتا تو اس کے ذریعے مخلوق کا اللہ کی عبادت کرنا کافی نہ ہوتا اور اگر اس پر اس قدر ثواب نہ ملتا تو اللہ اسے تمام امتوں پر فرض نہ کرتا۔روزے فرض کرنے کا مقصد وہ تقوی پیدا کرنا ہے جس کا حکم اللہ نے تمام امتوں کو دیا ہے اور جس کی تاکید فرمائی ہے۔ایک جگہ اللہ نے فرمایا:
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ (2)
“اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو”۔
(2) روزے کا ثواب کسی خاص عدد میں محصور ومقید نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس کا بے حساب ثواب عطا فرمائے گا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَالَ اللّٰهُ : ” كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ ، إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي ، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ ، فَلْيَقُلْ : إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ .(3)
“اللہ فرماتا ہے:ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے ،مگر روزہ تو وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا ثواب عطا کروں گا۔روزہ برائیوں سےبچنے کے لیے ایک ڈھال ہے ۔جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں نہ کرے اور نہ شور شرابہ کرے ،اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرنا چاہے تو اس سے کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ،روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو اللہ کی نظر میں مشک سے بھی زیادہ پاکیزہ اور خوشبودار ہے ۔روزہ دار کے لیے دو خوشیوں کے مواقع ہیں جن میں وہ انتہائی خوشی محسوس کرتا ہے:ایک خوشی اس وقت اسے ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اپنے روزے سے اسے اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا”َ۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ ” قَالَ اللّٰهُ – تَعَالَى – ” إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي۔(4)
“ابن آدم کی ہرنیکی کا اجردس گنا سے سات سو گنا تک ہوجاتا ہے۔مگر روزہ، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے (حدیث ِقدسی میں) فرمایا:  لیکن روزہ چونکہ میرے لیے ہے، اس کا اجر بھی (بلا حساب) میں ہی دوں گا۔وہ میرے لیے اپنی خواہشات نفس اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے “۔
یہ عظیم الشان حدیث روزے کی فضیلت پر کئی پہلووں سے روشنی ڈالتی ہے ،ان کی تفصیل شیخ علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
(الف)اللہ تعالیٰ نے تمام عبادات کے درمیان صرف روزہ ہی کو اپنی ذات کے لیے مختص فرمایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کو اس کی نظر میں خاص شرف حاصل ہے،وہ اسے بہت محبوب رکھتا ہے اور اس سے اللہ عزوجل کے لیے اخلاص کا ظہور ہوتا ہے۔روزہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ایک راز کی حیثیت رکھتا ہے جس سے صرف اللہ ہی واقف ہوتا ہے۔ایک روزہ داربسا اوقات لوگوں کی نگاہوں سے دور تنہائی کے عالم میں ہوتا ہے اور ان چیزوں کو استعمال کرنے پر قادر ہوتا ہے جو روزہ کے دوران حرام ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان کا استعمال نہیں کرتا کیوں کہ اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کا رب اس کی خلوت سے بھی واقف ہے اور اس نے روزے کی حالت میں ایسی چیزوں کو حرام کیا ہے ،اس لیے وہ اللہ کی خاطر ان کو ترک کردیتا ہے ،اسے اللہ کے عذاب کا خوف ہوتا ہے اور ثواب کی امید ہوتی ہے،اسی لیے اللہ نے اس کے اس اخلاص کو پذیرائی بخشی اور تمام اعمال میں روزے ہی کو یہ کہہ کراپنے لیے مختص فرمایاکہ اس نے میری وجہ سے اپنی خواہشات نفس اور کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔اس اختصاص کا فائدہ قیامت کے دن ظاہر ہوگا جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں:
إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يُحَاسِبُ ا للّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدَهُ وَيُؤَدِّي مَا عَلِيهِ مِنَ الْمَظَالِمِ مِنْ سَائِرِ عَمَلِهِ حَتَّى لاَ يَبْقَى إِلاَّ الصَّوْم، فَيَتَحَمَّلُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنَ الْمَظَالِمِ وَيُدْخِلُهُ بِالصَّوْمِ الْجَنَّةَ ۔(5)
“قیامت کے دن اللہ عزوجل اپنے بندے کا حساب لے گا اور اس کے سر جو مظالم ہوں گے،ان کی بھرپائی روزے کے علاوہ اس کے دوسرے اعمال سے فرمائے گا ،اس کے بعد بھی اس کے مظالم اگر باقی ہوں گے تو ان کو اپنے سر لے لے گا اور روزے کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کردے گا”۔
(ب)اللہ نے روزے کے بارے میں فرمایا کہ میں اس کی جزا خود عطاکروں گا۔اس نے جزا کو اپنی ذات کریمہ کی طرف منسوب کیا ہے۔دیگر اعمال صالحہ کا اجروثواب تعداد میں دوچند سہ چند کیا جاتا ہے ،دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ ثواب بھی دیا جاتا ہے ۔ان سب کے درمیان اللہ نے روزے کو خاص کرلیا ہے اور اس پر وہ ثواب بغیر تعداد کا اعتبار کیے عطا فرمائے گا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمام کریموں سے بڑا کریم اور تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑا سخی ہے،اس کی عطیات اس کی اپنی شان کے مطابق ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کا اجروثواب بے حساب اور بہت زیادہ ہوگا۔روزے کی عبادت میں صبر کی تمام قسمیں موجود ہوتی ہیں۔ایک روزہ دار اللہ کی اطاعت پر صبر کرتا ہے،اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے دور رہنے پر صبر کرتا ہے اور روزہ رکھتے ہوئے جو بھوک پیاس لگتی ہے اور اس سے جسم کو جو کمزوری لاحق ہوتی ہے،اس پر صبر کرتا ہے۔اس طرح صبر کی ساری قسمیں ایک روزہ دار میں جمع ہوجاتی ہیں اور اس کا شمار اللہ کے صابر بندوں میں ہونے لگتا ہے اور اللہ نے اپنے صابر بندوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (6)
“صبر کرنے والوں ہی کوان کا پورا پورابے شمار اجر دیا جاتا ہے”۔
(ج)روزہ ڈھال ہےیعنی وہ اس کے ذریعے گناہوں سے بچتا ہے اور اس کے اور اس کے گناہوں کے درمیان ایک اوٹ اور پردے کا کام کرتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ روزہ دار اپنے روزوں کی وجہ سے لغو اور شہوانی جذبات کو بھڑکانے والی باتوں سے محفوظ رہتا ہے۔اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں نہ کرے اور نہ شور شرابہ کرے۔اسی طرح روزہ ایک مسلمان کو جہنم سے بھی بچاتا ہے۔مسند احمد میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنْ النَّارِ۔(7)
” روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے ایک بندہ جہنم سے اپنا بچاؤ کرے گا”۔
(د)روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کی نظر میں مشک سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے کیوں کہ وہ روزہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔منہ سے نکلنے والی یہ بو اور باس اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ خوشبودار ہے اور اسے بہت محبوب ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی نظر میں روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے یہاں تک کہ اس کی وجہ سے ایک ایسی چیز جو لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ اور بری ہے ،وہ اللہ کی نظر میں محبوب اور پاکیزہ ہے کیوں کہ وہ روزہ کے ذریعے اللہ کی اطاعت بجالاتے ہوئے پیدا ہوئی ہے۔
(ہ)روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک خوشی اسے اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔افطار کے وقت اسے خوشی اس انعام پر ملتی ہے جو اللہ نے روزہ رکھنے اور راتوں میں قیام کرنے کی توفیق دے کر اس پر فرمایا ہے اور یہ اعمال صالحہ میں سب سے افضل اعمال ہیں۔کتنے لوگ اس نعمت سے محروم رہے اور انھوں نے روزے نہیں رکھے اور روزہ دار اس بات پر بھی خوش ہوتا ہے کہ اللہ نے حالت روزہ میں کھانے پینے اور بیوی سے جماع کرنے کی جو پابندی اس پر عائد کی تھی ،افطار کا وقت ہوتے ہی وہ پابندی اس سے اٹھا لی جاتی ہے۔اپنے رب سے ملاقات ہونے پر اسے خوشی یہ دیکھ کر حاصل ہوگی کہ اللہ نے اس کے روزوں کا بھرپور اجر وثواب اس وقت اسے عطا فرمایا جب وہ اس کا سب سے زیادہ محتاج تھا۔اس وقت آواز دی جائے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں،وہ آئیں تاکہ باب ریان سے جنت میں داخل ہوں۔ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی دوسرا داخل نہیں ہوسکے گا۔
(3) روزہ قیامت کے دن روزہ دار کی سفارش کرے گا۔سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، قَالَ فَيُشَفَّعَانِ۔(8)
“روزہ اور قرآن ،مسلمان کی قیامت کے دن شفاعت کریں گے ،روزہ کہے گا:اے میرے رب!میں نے اس کو دن کے اوقات میں کھانے پینے اور جماع کرنے سے روک دیا تھا لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرمالے ،قرآن کہے گا:میں نے اس کو رات کے اوقات میں سونے سے روک دیا تھا لہذا اس کے متعلق میری سفارش قبول فرمالے اورپھر ان کی شفاعت قبول ہوگی”۔
(4) روزہ دار کے لیے جنت میں جانے کا ایک مخصوص دروازہ ہوگا جسے “ریان”کہا جاتا ہے۔اس دروزے سے جنت میں صرف روزہ داروں کو داخل کیا جائے گا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے،سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا ، يُقَالُ لَهُ : الرَّيَّانُ ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، يُقَالُ : أَيْنَ الصَّائِمُونَ ؟ فَيَقُومُونَ ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ .(9)
“جنت میں ایک دروزہ ہے جسے “ریان”کہا جاتا ہے ،قیامت کے دن روزہ دار اسی دروازے سے جنت میں داخل کیا جائیں گے ،ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے سے جنت میں نہیں جائے گا۔آواز دی جائےگی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟آواز سن کر وہ کھڑے ہوں گے ،ان کے علاوہ کوئی اور اس دروازے سے جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا ۔جب روزہ دار اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر کوئی اس دروازے سے جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا”۔
(5) جب کوئی مسلمان اس عبادت کی ادائیگی شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرتا ہے،روزے میں بھرپور اخلاص پیدا کرتا ہے اور رسول ﷺ کی ہدایات کے مطابق روزہ رکھتا ہے تو اس کے کئی ایک مفید اثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں جیسے حق پر ثابت قدم رہنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ،ایمان میں اضافہ ہوتا ہے،یقین میں مزید استحکام پیدا ہوتا ہے،عمدہ اخلاق سے مزین ہوتا ہے،شہوت نفسانی کا زور ٹوٹتا ہےاور خوف،امید اور محبت وغیرہ جیسے قلبی اعمال کی آبیاری ہوتی ہے۔امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“مقصد یہ ہے کہ روزے کے مصالح اور اس کے فائدےعقل سلیم اور فطرت مستقیم سے مشاہدے کی گرفت میں لائے جاسکتے ہیں،اسی لیے اللہ نے اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے،ان پر احسان کرتے ہوئے،ان کی حفاظت کی خاطر گناہوں سے بچنے کے لیے انھیں ایک ڈھال فراہم کیا ہے”۔(10)
اے اللہ!ہمیں توفیق دے ان کاموں کی جن کو تو محبوب رکھتا ہے اور جن سے تو راضی ہے،ہماری پیشانی کو بروتقوی کے لیے جھکادے،جو ہم نہیں جانتے ہیں،اس کا ہمیں علم عطا فرما اور جو ہم جانتے ہیں ،اس سے ہمیں فائدہ اٹھانے کی توفیق دے،ہمیں اپنے ان بندوں کے زمرے میں شامل کرلے جو روزہ کی فضیلت کا ادراک رکھتے ہیں اور تیری مرضی کے مطابق اخلاص کے ساتھ اپنے روزے کی حفاظت کرتے اور اس کی تکمیل کرتے ہیں۔
حواشی
(1) البقرة 183/2 ۔
(2) النساء131/4۔
(3) صحیح بخاری،رقم الحدیث:1904،صحیح مسلم،رقم الحدیث:1150،الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔
(4) صحیح مسلم،رقم الحدیث:1150۔
(5) سنن کبری للبیہقی 274/4،علامہ البانی نے “صحیح الترغیب والترہیب(978)میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
(6) الزمر10/39
(7) مسنداحمد396/3،رقم الحدیث :15200، علامہ البانی نے “صحیح الترغیب والترہیب(981)میں اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
(8) مسنداحمد174/2،رقم الحدیث :6626،مستدرک حاکم 740/1 ،علامہ البانی نے “صحیح الترغیب والترہیب(984)میں اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
(9) صحیح بخاری،رقم الحدیث:1896،صحیح مسلم،رقم الحدیث:1152،الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔
(10) زاد المعاد لابن قیم الجوزیہ28/2

آپ کے تبصرے

3000