بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

عزیر احمد

گزشتہ کچھ دنوں سے فلسطین سے آنے والی تصویروں کو دیکھ کر جہاں مجھے ایک طرف غم لاحق ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف خوشی بھی ہوتی ہے کہ میں اس دور میں جی رہا ہوں جس میں شجاعت و بہادری کی نئی تاریخ رقم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، طاقت کے توازن کی برابری نہ ہونے کے باوجود جس طرح سے مقابلہ کیا جا رہا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے، اسے دیکھ کر اگر کسی کا ایمان نہ تازہ ہوتا ہو، کسی کے اسلام میں مضبوطی نہ آتی ہو، رب کائنات پہ اس کے یقین و اعتماد میں اضافہ نہ ہوتا ہو تو اسے اپنی خیر منانی چاہیے۔
بچپن میں جب تاریخی کہانیاں، قصے اور ناول پڑھا کرتا تھا، اور دیکھتا تھا کہ لوگ کس طرح کلمہ حق کی سربلندی کی خاطر قربان ہوجایا کرتے ہیں، تو میں یہی سوچتا تھا کہ آخر کیسے کوئی اپنی جان اس طریقے سے دے سکتا ہے، کسی کے لیے جان اتنی سستی کیسے ہوسکتی ہے کہ میدان جنگ میں اتر جائے اور لڑتے ہوئے شہید ہوجائے، آخر وہ کون سا جذبہ ہے جو دنیا کو لوگوں کی نظروں میں حقیر بنا دیتا ہے، آج جب لوگوں کو بندوقوں اور توپوں کے مقابلے میں کنکروں اور پتھروں سے لڑتے دیکھتا ہوں تو بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ ایمانی جذبہ اور اپنے حق کی حصولیابی کی تمنا ہی ہے جو بڑی بڑی فوجوں اور ٹینکوں کے ساتھ مقابلہ آرائی پہ آمادہ کردیتی ہے۔
یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ یروشلم جو کہ متحدہ فلسطین کا ایک اہم شہر تھا، وہ آج دو حصوں میں منقسم ہے، مشرقی یروشلم اور مغربی یروشلم، بیت المقدس اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہے، جسے فلسطینی مستقبل میں آزاد فلسطینی ریاست کی راجدھانی کے طورپر تصور کرتے ہیں، 1947 میں جب اقوام متحدہ نے برطانیہ کے ذریعے حکومت کردہ فلسطینی علاقے کو عرب اسٹیٹ اور یہودی اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ، اس وقت یروشلم کو ایک اسپیشل اسٹیٹس عطا کیا گیا، جس کے مطابق اس کے ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری خود اقوام متحدہ کی تھی، لیکن بعد کے ادوار میں معاہدوں اور جنگوں کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اسرائیل نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اپنا دار الحکومت قرار دے دیا، جسے عالمی برادری آج بھی غیر قانونی سمجھتی ہے، 15 مئی 1948 کو مشرقی یروشلم سے بہت سارے فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کے بھاگنا پڑا جس کی یادیں ا بھی تک بڑے بوڑھوں کے ذہنوں میں تازہ و پیوستہ ہیں، انھیں آج بھی وہ گلیاں یاد ہیں جن میں کھیلتے ہوئے ان کا بچپن گزرا تھا، آج بھی ان سڑکوں کا نام ان کی زبانوں پر ازبر ہے جن پہ چلتے ہوئے انھوں نے اپنی زندگی کا اہم حصہ گزارا تھا، اس گھر کی تصویر آج بھی ان کے دلوں میں ر چی بسی ہے جس میں وہ پیدا ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر سال 15 مئی کو ”یوم نکبہ” کے طور پہ مناتے ہیں، اور اپنے گھر جائیداد کی طرف لوٹ جانے کے لیے احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں، ہر سال اس دن کے موقع پہ عوامی مزاحمت میں بھاری شدت آجاتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو اپنی جانیں بھی گنوانی پڑتی ہے، مگر آزادی اور حق کی لڑائی کا شعلہ جو ان کے دلوں میں روشن ہے، اس کو بجھا دینا کسی بھی طور سے اسرائیل کے لیے ممکن نہیں نظر آتا ہے۔
اس بار ”یوم نکبہ” کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے وجود میں آنے کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی خبر نے لوگوں کے غم اور غصے میں مزید اضافہ کردیا کیونکہ فلسطینیوں کے نزدیک سفارت خانے کا یروشلم میں منتقل ہونا اور پھر اس کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلینا گویا آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کا ٹوٹ جانا ہے، جسے تسلیم کرنا فلسطینیوں کے لیے کسی بھی حال میں ممکن نہیں، ان کے لیے جان دینا آسان ہے مگر جدوجہد اور امید کے راستے کو ترک کردینا نہایت ہی مشکل ہے،یوم نکبہ کی مناسبت سے یہ احتجاج اس وقت اپنے کلائمکس پہ پہنچ گیا جب ہزاروں فلسطینیوں نے اسرائیل اور غزہ کے درمیان کی سرحد پار کرنے کی کوشش کی، اسرائیلی فوجیوں نے انھیں روکنے کے لیے ان کے اوپر آنسو گیس چھوڑے اور فائر بھی کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 52 لوگ شہید ہوئے جن میں کئی نوجوان بھی شامل ہیں، اور تقریبا 2400 لوگ زخمی بھی ہوئے۔
جانیں گنوانے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، جس دن سے اسرائیل وجود میں آیا ہے، اس دن سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس میں کسی فلسطینی کی موت نہ واقع ہوئی ہو، پچھلے ستر سالوں سے اسرائیل یہ خونی کھیل عالمی طاقتوں کی شہ پہ کھیل رہا ہے، اور پوری دنیا ”صم بکم عمی” کی تصویر بنی خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہی ہے، یورپ میں اگر کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے، بھلے ہی اس میں کسی کی موت نہ ہوئی ہو، پھر بھی پوری دنیا غم و افسوس کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے، نیوز چینلوں اور اخباروں میں گویا باڑھ سی آجاتی ہے، جسے دیکھو وہی حسرت و افسوس جتانے پہ تلا ہوتا ہے، اور تو اور ہمارے عرب ممالک کے حکمراں غم و افسوس کا اظہار کرنے کے لیے اپنی شاندار عمارتوں اور بلڈنگوں پہ لائٹوں کے ذریعے اس ملک کے جھنڈے کی تصویر بنادیتے ہیں جس میں وہ حادثہ پیش آتا ہے ، مگر یہاں فلسطین میں لوگ روز مرتے ہیں، لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی ہے انسانیت کے نام پہ انسانیت نوازوں کا یہ دوہرا رویہ نہایت ہی شرمناک ہے۔
فلسطین میں اسرائیل جو قتل و خونریزی کر رہا ہے، وہ کوئی ”مقابلے” کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال نہیں ہے، دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے ذرا غلیلوں اور توپوں کا کبھی مقابلہ ہوسکا ہے، یہ تو ”نسل کشی اور مذہبی صفایا” ہے جسے اسرائیل اپنی حفاظت اور دفاع کے نام پہ انجام دے رہا ہے، اور بد قسمتی سے کچھ عرب حکمراں اسے اسرائیل کا حق قرار دے رہے کہ اپنا دفاع کرنے کا اسے حق ہے، بھلا بتائیے جس ملک کا وجود ہی ظلم و ستم کی بنیاد پہ ہو، جس کی دیواریں فلسطینیوں کے لاشوں کے ڈھیر پہ اٹھائی گئی ہوں، جس کی عمارتیں ان کی زمینیں چھین کے بنائی گئی ہوں، اسے دفاع کا حق کب سے حاصل ہونے لگا؟ جس کا وجود ہی نا انصافی کی عملی تصویر ہو، اسے دفاع کا حق دینا چہ معنی دارد؟
فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کے دل میں ایک ٹیس کی طرح ہے جس کا درد رہ رہ کے اٹھتا رہتاہے، اگر کوئی انسان اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے مگر اس درد سے نا واقف ہے، یا اسے وہ محسوس ہی نہیں کرپاتا ہے، تو اس سے بڑا بے حس کوئی بھی نہیں، فلسطین کا مسئلہ پوری امت کا مسئلہ ہے، امت کے ہر ہر فرد کا مسئلہ ہے، اورشاید اس کا حل بغیر کسی صلاح الدین ایوبی کے ممکن نہیں، آج بیت المقدس کی دیواریں نوحہ کناں ہیں، ان کی آہ و فغاں کو محسوس کیا جاسکتا ہے، وہ پلکیں بچھائے بڑے شوق سے منتظر فردا ہیں کہ کروڑوں مسلمانوں میں سے کوئی تو ان کی حفاظت کے لیے آگے بڑھے، کوئی تو قبلہ اول کو یہودی شکنجوں سے بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگادے، مگر ہائے افسوس، شاید پوری دنیا کے مسلمان ہی مجبور ہیں، یا سب کے دلوں میں موت کا خوف گھر کر گیا ہے، یا پھر بزدلی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ مسلم حکومتوں، تنظیموں اور جماعتوں کو ایک بیان تک دینا گوارہ نہیں، کیا ہم حقیقی معنوں میں اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ زمینی سطح پہ اگر مزاحمت نہیں کرسکتے، اپنے اپنے ملکوں میں یہودی سفارت خانوں کے سامنے احتجاج نہیں کرسکتے، تو کیا ہم فلسطینیوں کے حق میں دو بول بھی نہیں بول سکتے،حالانکہ مسلمانوں کی تو یہ اخلاقی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اس قسم کا واقعہ کہیں بھی پیش آئے، ظلم کے خلاف جس طریقے سے بھی ممکن ہوسکے احتجاج کریں، تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ مسلمان ایک زندہ قوم ہیں، ان کے اندر ابھی بھی جان باقی ہے، وہ ایک جسم کے مانند ہیں، اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو درد کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000