سید مکرم نیاز

سید مکرم نیاز

روبرو

یہ چوتھا انٹرویو بھی اسی واٹس گروپ “دبستان” سے مستعار ہے جس کے ایڈمن حضرات کبھی کبھی ایسا کارنامہ بھی انجام دیتے ہیں – طرز پیش کش میں ذرا سا فرق ہے – اس بار ہر سوال کے ساتھ پوچھنے والے کا نام بھی ہے – متعینہ مدت تک انٹرویو کو جاری رکھنے میں بڑا ہاتھ سوال پوچھنے والوں کا ہی ہوتا ہے – کس پوسٹ کو کتنے اور کن لوگوں نے پڑھا واٹس اپ میں یہ اپڈیٹ آنا ابھی باقی ہے – کچھ جواب خالص ‘دبستان’ گروپ کے لیے مخصوص تھے، لہذا انہیں یہاں شامل نہیں کیا گیا ہے-

سید مکرم نیاز صاحب سے ایک ملاقات ہے مختصر سی – “سرتاپا انکساری” یہی ایک تصویر ہے اب تک نگاہوں میں – آئیے آپ سے بھی ملاتے ہیں- (ایڈیٹر)


انٹرویو پینل:

(عبدالقدیر۔ رشید ودود۔ عبدالحسیب مدنی۔شعبان بیدار۔ حماد اکرم مختار۔ کاشف شکیل ۔ عبدالوحید سلفی۔ عبدالرحمن یحی۔ عبداللہ سلفی۔ سرفراز فیضی۔ ابوالمرجان۔ ابواشعر فہیم۔ جاوید مدنی ۔وسیم محمدی۔ شوکت پرویز۔ ابن کلیم۔ عبدالرحمن سلفی۔ ریاض الدین مبارک)

ــــــــــــــــــــــــــ

عبدالقدیر: اس بار انٹر ویو کے لیے گروپ کے قدیم ممبر سید مکرم نیاز صاحب کا انتخاب عمل میں آیا ہے… سید مکرم نیاز صاحب کو ادب اردو سے جنون کی حد تک شغف ہے، سید صاحب حیدرآباد کے رہنے والے ہیں، جو اردو کے گھروں میں سے ایک گھر ہے، یہی وجہ ہے کہ ادب اردو کا طالب علم دکنی ادب سے بے اعتنا نہیں رہ سکتا، سید صاحب نے اردو کو ڈیجیٹلائز کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے، خاصے با ذوق ہیں، اک عمر سعودی میں بتائی ہے، اب حکومت تلنگانہ میں بر سر روزگار ہیں، ایک ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں، معروضی ذہن ہے، چھان پھٹک کی عادت ہے…

مکرم نیاز صاحب! سب سے پہلے آپ اپنے نام و نسب اور تاریخ پیدائش کے بارے میں بتائیں؟؟
تاریخ پیدائش: 13 مئی 1968
مقام: حیدرآباد
خاندانی اور اسنادات والا نام: سید مکرم
والد محترم کے مطابق، داداجان نے یہ نام ریاست حیدرآباد کے نظام سابع میر عثمان علی خان کے پوت میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کے نام پر رکھا تھا جن کی بحیثیت نظام ہشتم میری پیدائش سے چند ماہ قبل تاج پوشی ہوئی تھی۔ آصف جاہی سلطنت کے یہی آخری نظام یعنی آٹھویں نظام رہے گو کہ اس وقت ریاست حیدرآباد کا ہند میں انضمام ہو چکا تھا…. نظام ہشتم آج بھی الحمد للہ آسٹریلیا میں حیات ہیں۔

عبدالقدیر:تعلیم اور اپنے خاندانی پس منظر پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟
تعلیم : جیسا کہ پچھلے کسی مراسلے میں حیدرآباد کے ایک مشہور تعلیمی ادارے کے اسکول بنام ‘ادارۂ ملیہ’ کا ذکر کیا تھا۔۔۔ یہ حیدرآباد کا بہت قدیم اور معیاری اردو+انگریزی میڈیم اسکول تھا۔ میرے خاندان کے اکثر بڑوں نے یہیں تعلیم حاصل کی اور بعد میں ان کی اولادوں نے بھی۔ اخلاقی اور دینی تربیت کے حوالے سے ہم سب اس اسکول کو آج بھی یاد رکھتے ہیں۔ ہمارے دور میں جو پرنسپل تھے اشفاق احمد صاحب، ان کا دو سال قبل ہی انتقال ہوا ہے، اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔اس دور میں یہ اسکول صرف چوتھی جماعت تک تھا اور میں تمام جماعتوں میں اول اور اسکول طلبہ کا مانیٹر ہوا کرتا تھا۔ بعد کے دو اسکولوں میں تعلیمی معیار برقرار نہ رہا یعنی پانچویں سے دسویں تک۔ انٹرمیڈیٹ میں البتہ میتھس گروپ میں، میں نے سارے کالج (ممتاز یار الدولہ جونئر و ڈگری کالج) میں اول پوزیشن لی تھی۔میرا سارا تعلیمی کیرئیر انگریزی میڈیم سے ہی رہا ہے۔ پھر انجینئرنگ کے مسابقتی امتحان میں کامیابی پر سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت مفخم جاہ انجینئرنگ کالج کے سول انجینئرنگ ڈسپلین میں داخلہ ملا جہاں سے 1989 میں 70 فیصد نمبرات کے ساتھ بی۔ای(سول) کی ڈگری حاصل کی۔
ہمارے زمانے میں کالج میں 95 فیصد مسلم طلبا اور باقی غیرمسلم کوٹے کی پابندی تھی۔ ابھی جنوری 2018 میں دنیا کے مختلف حصوں سے ہمارے بیچ کے کوئی 20-25 ساتھی حیدرآباد میں جمع ہوئے یعنی re-union ۔ تو ہم نے کالج کا دورہ کیا اور قدیم و جدید اساتذہ سے ملاقات کی، تمام اسٹاف کو ہوٹل میں استقبالیہ ڈنر پر بھی مدعو کیا تھا ۔ اسی دوران اساتذہ سے انٹرویو میں معلوم ہوا کہ ماشاءاللہ اب اس کالج میں مسلم طلبہ قریب قریب 99 فیصد ہیں اور تمام مسابقتی امتحان یعنی EAMCET سے کامیاب ہونے کے بعد ہی داخلے کے اہل قرار پاتے ہیں۔ ہمارے دور میں سالانہ فیس 7500 روپے تھی اور آج 90 ہزار کے قریب ہے۔ واضح رہے کہ بی۔ای چار سالہ کورس ہوتا ہے۔اس کالج (مفخم جاہ کالج آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی) کا شمار انڈیا ٹوڈے کے گذشتہ سال کے سروے کے مطابق، ہندوستان کے ٹاپ ٹین انجینئرنگ کالجز میں ہوتا ہے۔
خاندانی پس منظر : میری معلومات کے مطابق دادا سادہ دل عام مسلمان تھے، مسلکی ریشہ دوانیوں سے دور۔ چونکہ دادا جاگیردار تھے اور باؤلی کھدوائی کا ان کا ذاتی کاروبار نظام کی ریاست حیدرآباد کے تمام علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔پھر محلے میں ایک متقی پرہیزگار تبلیغی مزاج عالم وارد ہوئے جنھیں دادا نے اپنے بچوں کی دینی تعلیم پر مامور فرمایا۔ ان کے اثرات یہ رہے کہ انھوں نے نہ صرف ہمارے گھرانے سے بلکہ محلے کے اکثر گھرانوں سے شرک و بدعات کے اثرات بخیر و خوبی ختم کروائے۔ انہی مولوی صاحب (جنھوں نے میرے ددھیال کی دو نسلوں کو دینی تعلیم سے سرفراز کیا) کا ذکر میں نے کچھ سال قبل “فری لانسر” میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں کیا تھا۔ میں اور ہم چاروں بھائی بہن خود ذاتی طور پر ان کی موثر تعلیمات کے آج بھی احسان مند ہیں۔ اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔کمال الدین مولوی صاحب کے بعد میرے والد اور ان کے بھائی بہنوں پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ کے دروس کے اثرات رہے ہیں۔ ویسے مجھے تو یاد نہیں کہ ہم نے اپنے بچپن میں ننھیال یا ددھیال میں کسی قسم کی مسلکی چپقلش یا جھڑپیں یا کدورتیں دیکھی ہوں ۔ جیسا کہ آج کے دور میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

رشید ودود: آپ نے بتایا کہ آپ کے والد نے آپ کا نام سلطنت آصفیہ کے نمائندہ نواب برکت علی خان المعروف بہ مکرم جاہ کے نام پر رکھا تھا تو مکرم جاہ تو بڑے رنگین مزاج آدمی ہیں، دادا نے مکرم جاہ کو ترک دوشیزہ اسری کے کھونٹے سے باندھا تھا لیکن بعد میں مکرم جاہ نے چار شادیاں اور کیں، وہ ترکی ماڈل نے تو حیدرآباد میں مقدمہ بھی دائر کر رکھا تھا، تو کیا مکرم نام کا اثر آپ پر کچھ نہیں پڑا؟
میں بھی جواباً ایک سوال پوچھوں گا : چار شادیوں کے متوالوں کو فلاں فلاں کی 4 شادیاں دکھائی دے جاتی ہیں مگراس بات پر غور کیوں نہیں کیا جاتا کہ کسی سلطنت کے فرمانروا نے بیٹے کو چھوڑ کر پوتے کو کیوں جانشین مقرر کیا؟ کیا چار شادیوں والی “صلاحیت” کی بنا پر؟
خیر مذاق برطرف… جہاں تک میں نے ان کی سوانح پڑھی ہےبیچارے مظلوم رہے،کبھی چومحلہ پیلس دیکھنے کا موقع ملے تو وہاں کے پرانے بزرگ اہلکاروں سے مکرم جاہ کے متعلق ضرور پوچھیں۔ بائی دی وے… میرے نام کا انتخاب دادا نے کیا تھا، والد صاحب نے نہیں۔

عبدالحسیب مدنی: نیازی نسبت کی کیا حقیقت ہے ؟؟
کوئی نسبت نہیں، نیاز بس تخلص ہے۔ ہم دو بھائی، دو بہن ہیں۔مجھ سے سال بھر بڑی بہن، میں، دو سال چھوٹا بھائی سید معظم اور چھوٹی بہن۔لڑکپن میں ہم دونوں بھائی مل کر کھیلتے کھسرپسر کرتے تھے تو والد صاحب کہتے تھے کہ کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں؟ پھر جب میں نے دسویں میں لکھنا شروع کیا تو چاہا کہ میرا بھی کوئی قلمی نام ہو، والد صاحب سے مشورہ لیا تو بولے، لڑکپن میں ہی تو بتایا تھا…. وہ معظم راز ہے،تم مکرم نیاز
چھوٹا بھائی بھی کچھ عرصے سے ف۔ب پر لکھ رہا ہے:
https://www.facebook.com/moazzam.raaz
جبکہ میں اپنے قلمی نام سید مکرم نیاز یا کبھی مکرم نیاز سے غالباً 1980 سے اخبار و رسائل میں لکھ رہا ہوں۔یہ بھی واضح رہے کہ میرے والد محترم جناب رؤف خلش، عمر 77 سال، الحمدللہ حیات ہیں اور حیدرآباد میں جدیدیت کے ممتاز شعراء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ تین سال قبل اردو اکادمی تلنگانہ کی طرف سے اپنی شاعری پر کارنامہ حیات ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔

عبدالقدیر: آپ کی کتنی شادیاں ہوئی ہیں؟کیا اور کرنے کا ارادہ ہے؟شادی کہاں ہوئی ہے؟
اتفاق سے میرا تعلق اس گروہ سے ہے جو سماجی اور علمی بنیادوں پر برصغیری معاشرے کے لیے صرف ایک کا قائل ہے۔اس تعلق سے میں کچھ عرصہ قبل برادرم سرفراز فیضی کے ایک مضمون کے رد میں اور صرف ایک شادی کے حق میں جوابی مضمون لکھنا شروع کیا تھا جو کچھ حوالوں کی عدم دستیابی کے سبب ابھی نامکمل ہے۔ شاید لیپ ٹاپ کے کسی کونے کھدرے فولڈر میں اب بھی نامکمل پڑا ہو۔شادی ایک ہی کی اور عمر بھر میں ایک ہی کا قائل ہوں۔ اپنے اپنے نظریے کی بات ہے۔
شادی حیدرآباد میں دسمبر-2000میں ہوئی۔ شادی کے بعد کا مرحلہ بہت سخت گزرا کہ وہ آئی-ٹی ڈاؤن فال کا دور تھا ساری دنیا میں۔ حیدرآباد اور بنگلور میں کافی ماہ روزگار کے حصول کی کوششیں کی مگر ناکام ہونے پر سعودی عرب میں مقیم دوستوں کے تعاون سے دوبارہ ستمبر-2001 میں ریاض میں وارد ہوا تو اپریل-2016 تک مقیم رہا۔

شعبان بیدار: مکرم بھائی مجھے بے حد تعجب ہے کہ کوئی خواہش سے بھی بے نیاز کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گزارہ ایک پر کرے کسی وجہ سے؟
شادی دراصل میرے نزدیک بہت بڑی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ اور ہمارا معاشرہ کچھ یوں ہے کہ خاندان کے خاندان اور خاندانی روایات اور جذبات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ کوئی فرد صرف اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے تو اسے بھلا کیا مشکل ہے لیکن کوئی نظام سے نبردآزما ہونا چاہے تو پھر اتنی جرات بھی رکھے اور حوصلہ بھی۔

حماد اکرم مختار: آپ نے قاسم کا حوالہ دیا۔ ابن صفی کے ناولوں کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟؟؟ چھوٹے بچوں کے لیے کہانی کی کونسی کتابیں آپ کے نزدیک بہترین ہیں؟؟ یا آپ خود اپنے بچوں کو کونسی کتابیں دیتے ہیں؟؟
ابن صفی کے ناولوں کی واقعی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے اور وہ ادب کا حصہ بھی ہیں۔ چاہے ناقدین ان ناولوں کو سری ادب کہہ کر نظرانداز کریں۔
اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ انہی ناولوں کے ذریعے ایک سے زائد نسلوں نے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا۔ میں اور میرے کئی قریبی عزیز اور دوست اس بات کے قائل ہیں اور مثال بھی۔
میں ابن صفی کے ناولوں اور ان ناولوں کے کرداروں کا بڑا شیدائی ہوں ۔ اس کے باوجود معروضی سطح پر یہی کہنا چاہوں گا ، یہ درست ہے کہ آجکل سوشل میڈیا کے ذریعے ابن صفی اور ان کے ناولوں کی ستائش میں مبالغہ آرائی بھی کی جا رہی ہے۔ ابن صفی کے ناول تفریحی ادب اور سنجیدہ ادب کی درمیانی کڑی ہیں۔ نہ انھیں صرف تفریحی ادب کہہ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ خالص ادب کہہ کر ادب عالیہ کے درجے پر بٹھایا جا سکتا ہے۔جو چیز جہاں ہے وہیں رکھنی چاہیے۔
چھوٹے بچوں کے لیے کہانی کی کتب (سافٹ یا ہارڈ کاپی) تین زبانوں میں سودمند ہیں۔ انگریزی، ہندی اور اردو۔بچوں کی عمر کے درجے کی کتب کا انتخاب والدین کی ذمہ داری ہے۔ میں تو نیشنل بک ٹرسٹ کی ویب سائٹ سے آن لائن خریداری کرتا ہوں اور اس ضمن میں اچھا تجربہ ہے۔ کتب کم قیمت ہیں اور بذریعہ ڈاک گھر بیٹھے چند دن میں مل جاتی ہیں۔ویسے میرے پاس اپنے بچپن/لڑکپن کے زمانے کی لاتعداد کتب بھی محفوظ ہیں۔ انگریزی/ہندی میں کارٹون/کامکس کی بے شمار کتب اور اردو میں نور، ھلال، کھلونا اور دیگر کتب و رسائل۔

عبدالقدیر: کتنے بچے ہیں؟
بچے الحمدللہ 5 ہیں۔ بیٹا اب انٹرمیڈیٹ فائنل میں جائے گا، بیٹی دسویں جماعت میں، اور باقی ایک بیٹا اور دو بیٹیاں دیگر کلاس میں جائیں گے۔ آنے والے ماہ جون کے نئے تعلیمی سال سے…

کاشف شکیل: آپ نے ظاہر ہے بچپن میں حیدر آباد کو موجودہ حیدرآباد سے بہت الگ پایا ہوگا۔اس وقت کے حیدرآباد اور فی الحال کے حیدرآباد میں آپ کتنا فرق محسوس کرتے ہیں اور کیسا؟ اگر مناسب سمجھیں تو آگاہ کریں۔
بچپن کے حیدرآباد اور موجودہ حیدرآباد کا موازنہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ میں فی الحال اس حیرانگی میں مبتلا ہوں کہ وہ والا حیدرآباد کہاں گیا جسے چھوڑ کر میں سعودی عرب روانہ ہوا تھا؟مگر ہمارے علامہ فرما گئے ہیں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
بدقسمتی سے میں اس گروہ سے تعلق نہیں رکھتا جو ماضی کو بیان کرتا ہے تو اس انداز میں کہ ماضی میں پھر سے جینے کی پوشیدہ خواہش بھی عیاں ہو جائے۔ماضی ہمیشہ اچھا ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل بھی شاید وہ روایت ہے جس کا مفہوم ہے کہ تمہارا ہر آنے والا دن پچھلے سے بدتر ہوگا۔بہرحال ۔۔۔ ہمارے ہاں حیدرآباد میں ایک معروف و مقبول قلمکار، مورخ اور ادیب علامہ اعجاز فرخ حفظہ اللہ ہیں۔ گزشتہ حیدرآباد کو جاننا ہو تو ان کی کتابیں پڑھیں یا مضامین یا خود ان سے مل لیں۔ الفاظ تو ان کے نزدیک ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔جب حیدرآباد بیس سالوں میں کافی کچھ بدلا ہے تو چالیس سالوں میں کیا کچھ نہ بدلا ہوگا۔

عبدالوحید سلفی: مکرم نیاز صاحب آپ کو کامکس اور بچوں کے ادب پر لکھنے کا شوق کب اور کیوں ہوا اور اب تک اس سلسلے میں کس حد تک کام کیا ہے؟
میری فیملی سعودی عرب میں کوئی 6 سال میرے ساتھ رہی اور اس کے بعد کے 4 سال محض دو ماہ ریاض میں ساتھ چھٹیاں گزارنے کی حد تک۔اسکول کی چھٹیوں کے دوران میں اپنے بچوں کو کارٹون کتب پڑھ کر سناتا تھا، انگریزی/ہندی پھر ان کا اردو ترجمہ۔۔۔ تو ایک بار بڑی لڑکی نے پوچھا کہ یہ کارٹون اردو کیوں نہیں بولتے؟میں گرافکس ڈیزائن میں مہارت رکھتا تھا، لہذا ایک کارٹون کہانی سے انگریزی مکالمے نکال کر اردو مکالمے تحریر کیے اور پرنٹ لے کر بچوں کو بتایا۔ بچے بڑے خوش ہوئے۔ اسی دور (2011 کے اواخر) میں میرے صحافی دوست شمس الرحمن علوی نے کارٹون/کامکس سے متعلق اپنے بلاگ پر ایک تحریر لکھی کہ آج ٹیکنالوجی کی اتنی سہولیات ہونے پر بھی اردو میں کارٹون کامکس کیوں نہیں ہیں؟ اخبارات ورسائل اور ویب سائٹس کیوں اس شعبے کو نظرانداز کر رہے ہیں؟ ان کا یہ سوال میرے دل پر اس لیے لگا کہ میں اپنے بچپن/لڑکپن میں کارٹون/کامکس کا بےانتہا شائق تھا اور سینکڑوں کارٹون/کامکس کتب میرے پاس تھیں۔ لہذا میں نے سنجیدگی سے اس پر غور کیا اور اپنی اہلیہ اور بچوں کے تعاون سے کچھ کارٹون کہانیوں کے اردو ترجمہ پر کام شروع کر دیا۔ یوں فروری 2012 میں اپنی بڑی بیٹی کی سالگرہ کے دن اردو کڈز کارٹون کا افتتاح ہوا ۔ جو آج بھی سائبر دنیا میں اردو کارٹون کامکس کی بچوں کی واحد ویب سائٹ ہے ۔
فی الحال اردو کارٹون ویب سائٹ پر 16 قومی و بین الاقوامی کارٹون کرداروں کی 250 کے قریب کہانیاں پیش کی جا چکی ہیں۔ اور کامکس میں جہاں بین الاقوامی کردار فینٹم یعنی شہ زور نقاب پوش اور مینڈریک یعنی جادوگر سرکار کی تین تین طویل کہانیاں شائع کی گئی ہیں وہیں ہندوستانی کامک کردار بہادر کی تین کہانیاں اور فولادی اور سپریمو کی ایک ایک کہانی زیرتکمیل ہے۔ عنقریب شرلاک ہومز کی کامک بھی پہلی بار سائبر دنیا کی اردو کمیونیٹی میں اردو کارٹون دنیا کے ذریعے پیش کی جائے گی۔
اردو کارٹون دنیا کی ویب سائٹ گذشتہ 6 سال سے انٹرنیٹ پر فعال ہے اور اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو ویکیپیڈیا پر اس کا ذاتی صفحہ بھی ویکیپیڈیا منتظمین نے حال ہی میں بنایا ہے۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کی ترجمان نمائندہ انگریزی ویب سائٹ ‘ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ’ پر اردو کارٹون دنیا ویب سائٹ کے حوالے سے لیا گیا چند سال قبل کا میرا مختصر انٹرویو یہاں اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے :
https://bit.ly/2Logdfb
کارٹون کہانی کم سے کم ایک صفحہ کیکارٹون کہانی کم سے کم ایک صفحہ کی اور زیادہ سے زیادہ 6 صفحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جبکہ ایک مکمل کامک کتاب کے 30 سے 40 صفحات ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی گئی کارٹون کہانیوں کی تزئین کاری فوٹو ایڈیٹنگ سافٹ ویئر کے ذریعے پہلے کرنا پڑتی ہے مثلاً تصویر کا مناسب ریزولیشن، اس کی رنگ آمیزی، کنٹراسٹ اور برائٹ نیس کا توازن، سائز اور حجم وغیرہ۔ پھر بیانیہ اور مکالموں کے خانوں، جنھیں کارٹون کتب کی زبان میں Bubbles کہا جاتا ہے، سے اصل زبان کی تحریر کو صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ایسے سلیس ترجمہ کا معاملہ آتا ہے جو نہ ادق ہو ، نہ خالص ادبی اور نہ عامیانہ۔ اس کے لیے دونوں متعلقہ زبانوں پر مہارت رکھنا کافی نہیں بلکہ کارٹون اور کامکس کی دنیا سے بھی مترجم کو بخوبی واقفیت رکھنا چاہیے۔
کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ زبان اور تہذیب کے زیراثر کسی مکالمے کی ترجمانی اصل سے یکسر مختلف ہو جاتی ہے اور کبھی جب ترجمے کے الفاظ زائد ہو جاتے ہیں تو تصویر کو متاثر کیے بغیر Bubble کا رقبہ بڑھانا پڑتا ہے۔ یہ تکنیکی دشواریاں فوٹو ایڈیٹنگ یا گرافک ڈیزائننگ کے ماہرین بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
انگریزی اور ہندی زبان کی دو مختلف کہانیوں سے یہ دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
اصل انگریزی مکالمہ: (سپریمو کی سلسلہ وار انگریزی کہانی)
No, I shall recite my favourite poem, written by my father
اردو ترجمہ: نہیں ! میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ اپنے نوعمر دوستوں کو اپنی پسند کی ایک نظم سناؤں ، یہ میرے والد کی تحریر کردہ ہے۔

اصل ہندی مکالمہ: (چاچا چودھری کی ایک ہندی کہانی) :
آپ نے بہت اچھا کام کیا چاچا جی۔ اس کے گروہ کے باقی سدسیوں کا پتا ہم اسی سے لگا لیں گے۔
اردو ترجمہ: چاچا جی بہت بہت شکریہ۔ اب ہم اسی کی مدد سے گروہ کے سربراہ اور تمام اراکین کو گرفتار کریں گے۔

http://www.urdukidzcartoon.com

عبدالقدیر: آپ کے والد صاحب ایک بڑے شاعر ہیں… ان کے بارے میں مختصر کچھ بتائیں؟
اپنی ویب سائٹ کے تعارف کے لیے والد صاحب نے کچھ یوں لکھ کر دیا تھا :
شاعری فنون لطیفہ کی ایک ایسی صنف ہے جو بندھے ٹکے اصولوں کے سہارے نہیں چلتی۔ اس کے لیے احساس، مشاہدے اور تجربے کا ہفت خواں طے کرنا پڑتا ہے۔ شاعر احساس کی دنیا میں سانس لیتا ہے، مشاہدے کا کرب جھیلتا ہے اور تجربے کی آنچ میں نت نئی دنیاؤں کی بازیافت کرتا ہے۔ میرا تخلیقی سفر ایسی ہی راہوں کے پیچ و خم سے عبارت ہے۔ 1960 کی دہائی میں ایک ایسے وقت میں نے شعر گوئی کا آغاز کیا جب اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک اپنی شدت پسندی کے باعث عدم توازن اور عدم اعتدال کا شکار ہو رہی تھی اور اردو شاعری میں نئے رجحانات “جدیدیت” کی شکل میں اپنی صورت گری کر رہے تھے۔ یہ فضا برصغیر میں اظہار و بیان کے نئے سانچوں اور نئے امکانات کی تلاش کر رہی تھی۔
ڈاکٹر فاروق شکیل کے ایک حالیہ مضمون سے کچھ دیگر معلومات نقل کر دیتا ہوں یہاں :
اجمالی تعارف :
نام : سید رؤف
قلمی نام : رؤف خلشؔ
پیدائش : 4 جنوری 1941 ء
تعلیم : ڈپلوما ان آرکیٹکچر (جواہر لعل نہرو ٹکنالوجیکل یونیورسٹی حیدرآباد)
کتابیں :
(1) “نئی رتوں کا سفر ” (شعری مجموعہ 1979 ء
(2) “صحرا صحرا اجنبی” (شعری مجموعہ) 1988 ء
(3) شاخِ زیتون (شعری مجموعہ) 1998 ء
(4) “شاخسانہ ‘’ (شعری مجموعہ 2007 ء
(5) “حکایت نقد جاں کی” (مضامین و تبصرے) 2012 ء
(6) تلخیص ابن الوقت” (تنقید و تبصرہ ) 2014 ء
ایوارڈ: “کارنامۂ حیات ایوارڈ” 2015 ء اردو اکیڈیمی تلنگانہ۔
1981 سے 1996 تک سعودی عرب کے مختلف شہروں میں بہ سلسلہ ملازمت قیام رہا۔
رؤف خلش حیدرآباد کے جدید شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے شاعری کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نا مے ، بدلتے اسلوب کو ایک نیا پن دیا ہے ۔ جدید شاعری کی خشک ہواؤں اور تازہ جھونکوں میں رؤف خلش نے بھی اپنے احساسات کو روشن رکھا ۔ علامتی اور استعاراتی اظہار نے ان کی غزلوں کی تہ داری اور رمزیت میں اضافہ کیا ہے ۔ انھوں نے مضامین کی جدت اور اظہار کی ندرت کے ساتھ جدید غزل کی تعمیر و تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں اردو کی شعری روایت کا تسلسل اپنے تمام تر تہذیبی و سماجی تناظر کے ساتھ ان کے انفرادی لہجے میں ڈھلتا ہے ۔ رؤف خلش کی نظمیہ کائنات میں بھی ان کے انفرادی لہجے کی کھنک موجود ہے ۔ ان کاکلام پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جذبے بولتے ہیں، دھڑکنیں گویا ہوتی ہیں، زخم روشنی دیتے ہیں ۔ منظر سے پس منظر ابھرتے ہیں۔
منتخب اشعار :
ہوا سے لڑنے میں ہم ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں
مگر فضا کو نئی دستکیں سناتے ہیں

زخموں کو پھول کردے ، تنہائیوں کو مرہم
سو قربتوں پہ بھاری ہجرت کا ایک موسم

چھپنے کو شہر ذات بچا تھا مرے لیے
اس شہر میں بھی چاروں طرف آئینے لگے

تیری گفتار خلشؔ اور قرینہ مانگے
بول میٹھے سہی لہجے میں ذرا تلخی ہے

اتنے اُڑے کہ دور اڑا لے گئی ہوا
اتنے جھکے کہ سانس انا کی اکھڑ گئی

اُترو خود اپنی ذات کی گہرائی میں خلشؔ
اُبھرے جو اپنے آپ کو پانے کی آرزو

دھنک کے رنگ ، سلگتے بدن ، جواں خوشبو
یہ کیسے خواب میری نیند سے چرائے چاند

*نظم “نیا مفہوم”
درد، مروت ، رشتے ناطے
بچپن میں ان لفظوں کے کچھ معنی تھے
جیسے جیسے دن بیتے
ان لفظوں کے معنی بدلے
اب یہ دنیا عمر کی جس منزل میں ہے
لگتا ہے یہ سارے الفاظ
اندھے ہو کر
اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں

نظم نیا مفہوم، ایک یادگار نظم ہے، خاندان کے کچھ گھروں میں بطور طغرہ لگی ہے۔ اور ہم چاروں بھائی بہن کے تمام بچوں کو ازبر ہے۔ میں نے شاید کبھی اپنی ف.ب ٹائم لائن پر اپنی سب سے چھوٹی بٹیا کی آواز میں یہ نظم پوسٹ کی تھی۔

عبدالرحمن یحی: ہماری معلومات میں اضافہ کریں کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟
میں کیوں لکھتا ہوں؟…… کچھ افراد میں لکھنے کی فطری صلاحیتیں ہوتی ہیں اور کچھ کو وراثت میں ملتی ہیں۔ ممکن ہے میرے پاس دونوں کا مجموعہ ہو۔ ہم چاروں بھائی بہنوں میں صرف میں ہی بچپن/لڑکپن سے لکھ رہا ہوں۔ چھوٹے بھائی معظم نے کچھ وجوہات کے سبب ابھی کوئی دو چار سال سے لکھنا شروع کیا ہے۔ اس کے پاس جو خوبی اللہ نے ودیعت کر رکھی ہے وہ یادداشت کی صلاحیت ہے ۔ جس کے سہارے وہ کسی بھی موضوع پر اساتذہ کا شعر برمحل و برجستہ زبانی پیش کر سکتا ہے۔ اور والد صاحب کا تمام کلام تو غالباً اسے ازبر ہے۔
مجھے جہاں تک یاد ہے، خودفراموشی کے عالم میں کہانی/افسانہ لکھا کرتا تھا ۔ یہ دورانیہ 1980 سے 1995 تک کا ہے۔ یوں سمجھیں سعودی عرب جانے سے عین قبل ستمبر-1995 تک۔
شاید 50 سے کچھ زائد کہانی/افسانے/انشائیے مختلف ہندوستانی اخبار و رسائل میں شائع ہو چکے۔ اور پاکستانی رسالہ “دوشیزہ” میں بھی چند افسانے شائع ہوئے 90 کی دہائی میں۔ تمام تخلیقات اور ان کی فہرست میرے پاس محفوظ ہے۔کسی وقت نیٹ پر پیش کروں گا۔
سوچ رہا ہوں کہ “میں کیوں لکھتا ہوں؟” کے جواب کے تحت اپنے تاثرات نفسیاتی، روحانی، علمی و ادبی پیرائے میں ویسے ہی بیان کروں جیسے والد صاحب نے اپنے ایک نثری مضمون میں لکھا تھا ۔ مگر بات بات نہ ہو کر مضمون بن جائے گی۔ لہذا کسی اور وقت کے لیے سہی۔

عبدالحسیب مدنی: اردو سے لگاؤ صرف فطری ہے یا اس سلسلے میں مستقل تعلیم کا بھی عمل دخل ہے؟
اردو سے لگاؤ فطری بھی ہے اور وراثت سے بھی۔ جہاں والد محترم شاعر ہیں، وہیں ایک چاچا بھی شاعر، 2 چاچا خوش نویس اور قلمکار، پھوپھا (مرحوم) غیاث متین (حیدرآباد کے جدید لب و لہجے کے نمائندہ شاعر) جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے صدر رہے۔ اردو کی تعلیم و تربیت میں زیادہ ہاتھ ظاہر ہے کہ والد محترم کا رہا ، اس کے بعد پھوپھا مرحوم غیاث متین کا، اور پھر حیدرآباد کے پرائمری اسکول ‘ادارۂ ملیہ’ کے اساتذہ کا جہاں میں نے نرسری سے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ مخصوص مکتب فکر کا اپنے دور میں ، شہر کا یہ مشہور تعلیمی ادارہ تھا۔ آج بھی الحمدللہ جاری ہے۔ یہاں کے بیشتر فارغین ماشاءاللہ دنیا کے کونے کونے میں مصروف بہ کار ہیں۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اردو سے لگاؤ کا ذکر ہو اور اپنے قلمی دوستوں کا ذکر نہ کیا جائے…
یہ 80 کی دہائی کے اواخر کی بات ہے جب نہ موبائل تھا اور نہ انٹرنیٹ۔اس وقت مطالعہ یا پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والوں کے مشاغل میں “قلمی دوستی” بھی شامل تھی۔ایک خط جاتا ادھر سے اور ہفتہ دو ہفتہ میں جواب آتا ادھر سے۔ تو لوگ کرتے یہ تھے کہ سات آٹھ یا درجن بھر کے دوست پالتے تھے تاکہ ہفتہ بھر خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہے۔میری بھی کچھ یہی روٹین تھی، اس فرق کے ساتھ کہ ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر میں ایک نہ ایک قلمی دوست رہا۔ اور کراچی پاکستان سے صرف ایک، جو اس وقت سعودی عرب میں مقیم تھے۔ جب میں نومبر 1997 میں ریاض سے کراچی، دس دن کے لیے گیا تھا، رسالہ ‘دوشیزہ’ رائٹرز ایوارڈ کی وصولی کے لیے… تو انہی کے ہاں دس دن میرا قیام رہا تھا۔ واضح رہے کہ یہ حیدرآباد ہی کے متوطن تھے۔
خیر بات ہو رہی تھی قلمی دوستوں کی… روز ایک نہ ایک خط آتا ڈاک سے…. اور تقریباً روز کوئی نہ کوئی خط لکھا جاتا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے A4 سائز کے 31 صفحات کا ایک خط ایک بار بنارس کے دوست نے لکھا تھا۔ جس کے جواب میں، میں نے 25 صفحات کا لکھا۔ شاید وہی سب سے طویل خط تھا۔ بنارس کا وہ دوست آج فیملی فرینڈ ہے، آج بھی فیس بک اور وہاٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں ہے۔کوئی 20 کے قریب دوستوں میں سے آج بھی رابطے میں رہنے والے قلمی دوست بس چھ سات رہ گئے ہیں۔ اس خطوط نویسی پر والدہ بہت چڑتی تھیں کہ وقت کا زیاں ہے مگر ایک بار میں نے والد صاحب سے وضاحت مانگی تو انھوں نے جدہ سے اپنے ایک خط میں مجھے لکھا تھا :
خطوط نویسی محبتوں اور اخلاص کا ایک علمی و ادبی مظہر ہے اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ محبت و خلوص کا جواب محبت و خلوص سے ہی دیا جائے۔خط و کتابت کرنے والے “مملکتِ قلبِ گداز” کے سفیر ہوتے ہیں!!

عبدالوحید سلفی: اردو ادب کے ساتھ آپ کا لگاؤ قابل قدر ہے۔ آپ نے سعودی عرب میں اتنی لمبی مدت گزارنے کے باوجود اردو زبان کے آبرو کی حفاظت کی، یہ کیسے آپ نے مینٹین کیا؟؟
سعودی عرب میں 1997اواخر میں انٹرنیٹ آیا تھا۔۔۔ یعنی انٹرنیٹ کیفے کے ذریعے ۔۔۔ ایک گھنٹے کے 40 ریال (اس وقت فی ریال 8 روپے کا تھا)، پھر بتدریج گھٹتے گھٹتے فی گھنٹہ 2 ریال ہوا غالباً 2014 میں اور 2016 تک تو تقریباً انٹرنیٹ کیفے بند ہو گئے کہ موبائل پر ہی تمام سہولیات ارزاں قیمت پر دستیاب ہونے لگی تھیں۔میں 1997-98 میں ہر ہفتہ چار سے آٹھ گھنٹے نیٹ پر گزارا کرتا تھا، یعنی آفس اوقات کے بعد انٹرنیٹ کیفے میں بالخصوص جمعرات اور جمعہ کو۔ اس دور میں دفاتر میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں آئی تھی۔1998 کے کسی ماہ، میں نے انٹرنیٹ پر پہلی بار پندرہ روزہ اردو ezine شروع کیا تھا جو ہر ماہ دو بار پابندی سے اپ-ڈیٹ کرتا تھا۔ ان-پیج سے امیج فائل بنا کر اپلوڈ کرنا۔ اس ای-زین کو شادی سے قبل یعنی بس دسمبر 2000 تک بہ پابندی چلا سکا۔پھر 2001 اواخر میں دوبارہ سعودی عرب میں وارد ہونے کے بعد انٹرنیٹ اردو کمیونیٹی کی ایک نئی دنیا یعنی فورمز (ڈسکشن بورڈ) سے متعارف ہوا۔ سن 2002 سے 2014 تک کا یہی وہ طویل سلسلہ ہے جس کو میں نے مختلف قلمی ناموں کے ساتھ بڑی جانفشانی سے مینٹین کیا اور جس کے سبب میری سماجی و عائلی زندگی میں کافی اتار چڑھاؤ تو ضرو ر آئے مگر ایک طرف جدید تیکنالوجی سے گہری واقفیت ہوئی اور یہ معلوم ہوا کہ اردو زبان و ادب کو کس کس طریقے سے تیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے وہیں اس میدان کے بین الاقوامی سطح کے اردو داں ماہرین اور شعر و ادب ، تحقیق و تنقید کی نامور شخصیات سے روابط قائم ہوئے اور لسانی، ادبی، علمی ، مذہبی، مسلکی ، تقابل ادیان وغیرہ وغیرہ موضوعات پر مبنی کتب کے ڈیجیٹل ایڈیشن تک رسائی ہوئی، مطالعے کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور مجھے اردو ڈیجیٹل کتب کے ایک ضخیم و عظیم ذخیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے دو علیحدہ 500-500 جی۔بی کی ایکسٹرنل ہارڈ ڈسکس خریدنا پڑیں۔

عبداللہ سلفی: کچھ اپنے اساتذہ کے بارے میں بھی بتلائیے۔ اردو ادب سے دلچسپی کب اور کیسے ہوئی؟
اردو سے دلچسپی ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے کے سبب تھی۔ پھر والد صاحب کے نام گھر پر کئی اخبار و رسائل آتے تھے، جس میں خواتین کا مشہور ماہنامہ “بانو” بھی تھا، جس کے 60 سے 80 کی دہائی کے شمارے آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔میرے اساتذہ میں والد اور پھوپھا کے علاوہ دو پھوپھیاں، چاچا جناب یوسف روش اور سید منیر، کمال الدین مولوی صاحب، نانا مرحوم، ڈاکٹر بیگ احساس، پروفیسر رحمت یوسف زئی، اور ریاض میں جالیات کے دو علمائے کرام جن کے نام اس وقت بھول رہا ہوں، ریاض کے عادل سہیل ظفر اور جدہ کے مبشر نذیر۔۔۔ یہ تمام وہ افراد ہیں جن سے شخصی طور پر تربیت لی۔ سائبر دنیا کے اساتذہ میں تو البتہ کافی نام ہیں جو کسی اور وقت سہی۔مدرسہ ‘ادارۂ ملیہ’ کے اساتذہ نے بھی اردو سے متعلق میری دلچسپی کو مزید سہارا دیا اور کتب کے مطالعے کا رجحان بنایا۔ مدرسہ کی لائبریری سے کتب لے کر پڑھنے کی عادت ڈلوائی۔ یہ عادت آگے چل کر اتنا پختہ ہوئی کہ گریجویشن میں آنے تک روزانہ کسی نہ کسی لائبریری میں کم از کم ایک گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے گزارنا میرا معمول بنا رہا تھا۔تین لائبریریوں نے اپنے اپنے دور میں میری ذہنی، ادبی، لسانی تربیت میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
1۔ میرے آبائی محلہ ‘ملک پیٹ’ کی نیم سرکاری لائبریری “شعیب میموریل لائبریری”
2۔ آصفیہ سنٹرل لائبریری، افضل گنج، حیدرآباد
3۔ سٹی گراندھلیہ سمستھا، ملک پیٹ

سرفراز فیضی: وہ کون سی خصوصیات ہیں جو کسی تحریر کو ادب بناتی ہیں؟
اب بھئی میں ادب میں اس قدر بھی مہارت نہیں رکھتا کہ کوئی ٹھوس یا دوٹوک جواب دے سکوں اور نہ ہی لٹریچر کے اکیڈمک میدان سے میرے کوئی گہرے روابط رہے۔ البتہ اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی بات بتا سکتا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ادب کی کئی اصناف ہیں۔ شعر و شاعری، تحقیق و تنقید، افسانہ، ناول، انشائیہ، طنز و مزاح، صحافت وغیرہ
اور ہر میدان میں، ظاہر ہے کہ اونچے نیچے اوسط بہتر درجے جہاں ہوتے ہیں وہیں کچھ اصول و ضوابط بھی (ڈاکٹر عندلیب شادانی نے تو افسانہ کی کوئی 13 خصوصیات گنائی ہیں) … مثال شاعری ہی سے لے لیجیے… ہم تک-بندی کو شاعری نہیں مانتے، لیکن شاعری کسی کی اوسط ہو سکتی ہے کسی کی اعلی درجے کی۔ حتی کہ ایک ہی شاعر کے پاس کمتر اور اعلی درجے کا کلام مل جاتا ہے۔
اسی طرح نثر میں مولانا آزاد کی صحافتی تحریریں اس وقت بھی ادب کا حصہ مانی گئیں اور آج بھی مانی جاتی ہیں۔ لیکن کیا آج کے ہر صحافی کی تحریر ادب کا حصہ مانی جاتی ہے؟ آج کے اکثر صحافیوں کی تحریر ہفتہ دس دن بعد فراموش کر دی جاتی ہے تو مستقبل کا مورخ کیسے اسے ادب کی ایک صنف کی مثال کے طور پر پیش کرے گا؟
اسلوب، ندرتِ خیال، فکرآرائی یا نکتہ آفرینی، میرے خیال میں تحریر کو زندہ جاوید بناتی ہیں۔اسلوب یا سوچنے اور لکھنے کا انداز کوئی ایک دن یا ہفتہ بھر میں نہیں بنتا، اس ضمن میں ڈاکٹر سید عابد حسین نے بجا فرمایا کہ:
قلمکار کی فکر اور اس کے فن کو بلوغ کی منزل تک پہنچنے سے پہلے نشو و نما کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر مختلف استادوں کی تقلید میں خیال اور اظہارِ خیال کے مختلف طرز کو آزمایا جاتا ہے۔ بہت سے قلمکار انہی میں سے کسی تقلیدی مرحلے میں اٹک کر رہ جاتے ہیں مگر بعض جن کی طبیعت میں ایک خاص امنگ اور اپج ہوتی ہے ترقی کی اس منزل تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا اپنا سوچنے اور لکھنے کا ایک مخصوص اور مستقل انداز بن جاتا ہے۔
محمد حسن عسکری نے ادب کی تفہیم میں ایک بڑی دلچسپ بات کہی ہے:
بات یہ ہے کہ ادب جذباتی تجربوں کے بارے میں ہوتا ہے اور انفعالیت کوئی تجربہ نہیں ہے، احساس ضرور ہے۔
اگر فسادات کے معنی قتل و غارت گری یا جسمانی تکالیف کے لیے جائیں تو یہ فیصلہ ناگزیر ہے کہ فسادات ادب کا موضوع بن ہی نہیں سکتے خواہ دلی تعلق کی بنا پر ہمیں کتنا ہی رونا کیوں نہ آتا ہو۔اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر ایسے حادثات ادب کا موضوع نہ ہوں تو ان پر ادیبوں کو لکھنا ہی نہ چاہیے۔ ادیب ہر وقت ادب ہی تو پیدا نہیں کرتے رہتے۔ ان کی ذمہ داریاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک تو ادیب کی حیثیت سے، دوسری ایک جماعت کے فرد کی حیثیت سے۔
اس میں شک نہیں کہ ادیب کی پہلی ذمہ داری اس کی اولین ذمہ داری ہے مگر بعض موقعے ایسے بھی آتے ہیں کہ جب ادیب کے لیے اپنے دوسرے درجے کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہی واجب ہو جاتا ہے اور یہ ذمہ داریاں پہلی ذمہ داریوں کے منافی بھی نہیں ہوتیں۔

عبداللہ سلفی: بچوں میں اردو ادب سے دلچسپی کیسے پیدا کی جائے؟
کوئی ایک مخصوص زبان ہی کیوں؟ ادب بھی زندگی کا ویسا ہی شعبہ ہے جیسے اخلاقیات، دینیات، نفسیات وغیرہ ۔زبان تو ادب تک پہنچنے یا اس سے استفادہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قرآن کو تو رٹا مار کر سکھانے کو کافی سمجھا جاتا ہے مگر ادب کو جاننے سیکھنے کے لیے مادری زبان پر زور دیا جاتا ہے! خیر… کسی بھی زبان کے ادب سے بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عصر حاضر کا اسلوب، تقاضے اور طریقہ کار اپنائیں جائیں۔ہیری پوٹر انگریزی میں اسلوب اور جدید تقاضوں کی ایک مثال ہے۔ اور بچوں کے لیے موبائل ایپ موجودہ زمانے کا ایک طریقہ کار۔پلےاسٹور پر چیک کر کے دیکھیں کہ بچوں کے کلاسیکی ادب پر مبنی کتنی ایپ موجود ہیں؟ اور ہیری پوٹر یا ڈورےمون طرز پر اردو میں کیا ہے؟

کاشف شکیل: فی الحال اردو ادب کی ترقی یا تنزلی پر روشنی ڈالیں۔اردو کے تحفظ کے لیے ہماری پلاننگ کیا ہونی چاہیے؟
اردو کی ترقی یا تنزلی کا معاملہ نئی نسل سے ہی جڑا ہے۔ہم نے اس زبان کے نئے قاری یا طالب علم کو پیدا کرنے کے لیے بنیادی کام کیا کیا ہے؟جبکہ میری معلومات کی حد تک اردو کی زیادہ قوم دینی مدارس سے ہی نکل کر سامنے آ رہی ہے۔اجتماعی سطح پر اردو کے فروغ و ترویج کی ذمہ داری سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں کی ہے، اور وہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔۔۔ یہ بڑی خراب صورتحال ہے۔اب انفرادی سطح پر ہی کچھ کام ہو تو شاید کچھ بہتر صورتحال پیدا ہو۔زمینی سطح اور انٹرنیٹ/موبائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے کرنے کے کئی کام ممکن ہیں۔
زمینی سطح پر:
اپنے آس پاس کے ماحول ، عزیز و اقارب کے درمیان اردو کو صرف بول چال تک محدود نہ رکھیے ۔ بچوں/نوجوانوں کے ساتھ اخبار/رسائل کا دلچسپ مواد شیئر کیجیے۔ کسی خانگی/گھریلو تقریب میں بچے/نوجوان جمع ہوں تو انھیں اردو سے متعلق معلوماتی مقابلوں میں مشغول کیجیے، یا کسی موضوع پر مختصر کہانی یا مضمون لکھنے کا مقابلہ کرائیے۔ بچوں/نوجوانوں کو علاقے کی لائیبریری میں مطالعے کے چند لمحات گزارنے کی ترغیب دلائیں۔ مساجد میں جمعہ کو مختلف کاروباری ادارے یا تنظیمیں پمفلٹ بانٹتی ہیں۔ اخبار و رسائل سے اخذ کردہ منتخب دلچسپ مواد کو جمع کرکے A4 سائز پر پرنٹ کروائیں اور زیراکس نکال کر بطور پمفلٹ بعد نماز جمعہ تقسیم کریں۔
انٹرنیٹ/موبائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے:
مستقبل کی نسل انٹرنیٹ سرچنگ سے مواد تلاش کرے گی، مگر ظاہر ہے نیٹ پر جو موجود ہوگا وہی قاری/صارف کو سرچ انجن بتائے گا۔سینکڑوں موضوعات ہیں جنھیں آپ اور ہم نیٹ پر بلاگ کی شکل میں اردو میں شائع کر سکتے ہیں۔
ایک مثال سرچنگ سے یہی لیجیے :
ہند میں کچھ یونیورسٹیز ایسی ہیں جن کے نام اردو میں سرچ کرنے پر نہیں ملتے، آپ ذیل کی تین کو سرچ کر کے دیکھئے:
پوٹی سری راملو تلگو یونیورسٹی، اچاریہ این جی رنگا اگریکلچرل یونیورسٹی
چھترپتی شاہوجی مہاراج یونیورسٹی کانپور
ایم جے پی روہل کھنڈ یونیورسٹی بریلی
آپ کو سرچ انجن تعمیرنیوز کی طرف لے جائے گا۔
اپنے تعلیمی اداروں کی تفصیل انٹرنیٹ پر محفوظ کیجیے۔اپنے علاقے کے مجلوں/جریدوں/رسائل اور قلمکاروں کے کوائف انٹرنیٹ پر یونیکوڈ میں پیش کیجیے۔اہم قدیم و جدید کتب کا تعارف اور ان کے فہرست مضامین کو انٹرنیٹ پر دیجیے۔

عبدالحسیب مدنی: شاعری میں ترقی پسند ہونے کا یا جدیدیت کا سادہ مفہوم آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ترقی پسندی کی بات بعد میں سہی،جدیدیت کا ایک سادہ سا مفہوم 1990 کے ایک خط میں والد صاحب نے مجھے لکھا تھا جس سے مجھے اتفاق ہے اور جو مجھے آج بھی ازبر ہےیہاں نقل کیے دیتا ہوں: جس طرح ادب کا مقصد “تزکیہ نفس” ہوتا ہے، جدید ادب کا بھی وہی مقصد ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جدید ادب روایتی اسلوب کے بجائے جدید اسلوب کا قائل ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ادب کی ہر تحریک اپنے پچھلے ادیبوں اور شاعروں کے اسلوب سے انحراف کرتی ہے اور اپنا نیا اسلوب بناتی ہے۔ یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔
علامہ اقبال نے اسی بات کو ایک شعر میں اس طرح کہا ہے:
ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

ابوالمرجان: اور لگے ہاتھوں ما بعد جدیدیت پر بھی تبصرہ کرتے جائیں..
عمران شاہد بھنڈر نے نارنگ کی ساختیاتی تھیوری والے سرقے کا جو بم پھوڑا تھا، اس کے بعد آنکھوں میں مابعد جدیدیت والی روشنی نہ رہی۔

شعبان بیدار: اور مابعد الطبعیات کی بھی لفظی اور اصطلا حی شرح…… اللہ جزاء خیر دے
یہ جو آپ میں سے بیشتر احباب دوسری شادی نکاح ثانی ثلاثہ کے سوشل میڈیائی نعرے لگاتے رہتے ہیں اسے غریب خاکسار “مابعد الطبیعات” قبیل کی تعریف ہی سمجھتا ہے۔
غضب خدا کا ۔ نعرے تو بہت سنے۔ مگر کبھی کوئی عملی واقعہ علم سے نہ گزرا ۔ کم از کم کوئی اس سوال کا معقول جواب ہی دے دیتا کہ:سورما بھاپالی جی، پھر کیا ہوا ؟؟… خیر ۔۔۔ مابعد الطبیعات کی تعریف یہاں پڑھ لیجیے:
https://bit.ly/2HxcCJu

ابواشعر فہیم: ہندوستان کے مسلم معاشرے اور سعودی کے معاشرے اور خاندانی نظام، شادی بیاہ اور دیگر رسومات کے بارے میں بھی روشنی ڈالتے چلیں کہ دونوں سماج میں کیا کیا اور کتنا فرق ہے؟
سعودی معاشرے کی سب سے پہلی چیز جو متاثر کرتی ہے، اس کے متعلق سبھی کو علم ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کی پابندی۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس معاشرے کے 100 فیصد افراد اس پر کاربند ہیں مگر اکثریت تو ہے الحمدللہ۔
اور وہ خامی جس کا احساس مسلم ممالک میں ہوتا ہے، جیسے سعودی عرب اور پاکستان ۔ وہ یہ کہ مذہب کے معاملے میں ان کا مدمقابل کوئی نہیں ۔ اور ہمارے عصری دور میں انسانی مزاج یہ بن گیا یا بنا دیا گیا کہ جب تک مقابلہ آرائی نہ ہو ہم اپنے آپ کو ہی 100 پرسنٹ پرفیکٹ سمجھتے ہیں۔ پاکستان نے تو خیر کسی مذہب کو مدمقابل نہ پاکر “مسلک” کو ہی فریق مخالف سمجھ لیا۔ مگر افسوس کہ مسلک کی اچھائیوں کو اجاگر کرنے یا ان کی ترغیب دلانے کے بجائے ایکدوسرے کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔
مان لیا کہ توحید کی بنا پر سعودی معاشرے کے افراد اعلی و برتر ہیں مگر ان تعلیمات پر عمل کہاں ہے جو حجتہ الوداع کے مینی فیسٹو میں نہایت واضح طور بیان کیے گئے؟یہ خامی بہت کھلتی اور حساس لوگوں کے دل کو چوٹ پہنچاتی ہے۔
ہندوستان میں اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا مقابلہ قسم قسم کے مذاہب اور قومیتوں سے ہے اور پچاس سالوں میں سہی، مگر اب احساس ہو رہا ہے کہ ہمیں دوسروں پر برتری اپنے کردار و عمل سے جتانا چاہیے نہ کہ محض مذہب کی تعلیمات کی خشک تبلیغ سے۔ جس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں آسنسول کے مولانا محترم کی ہے جن کے صبر و تحمل اور رواداری کے جذبے کی ستائش ہر زبان کے میڈیا نے کی ہے۔
وطن عزیز کے مسلم معاشرے کی بڑی خامی عائلی معاملات میں غیراقوام کی دانستہ یا غیردانستہ نقالی ہے۔ جس کی موٹی مثال شادی کے بعد نوجوان جوڑے کو علیحدہ اپنا گھر بسانے کی اجازت یا ترغیب دینے میں کوتاہی برتنا ہے۔ جوائنٹ فیملی کی افادیت سے انکار نہیں مگر ہر دور اپنے مسائل کے ساتھ علیحدہ تقاضے کرتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ بوڑھے ماں باپ کی خدمت سے بھی انکار نہیں مگر یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی کہ ان کی خدمت کے لیے بہو کی شکل میں خادمہ لائی جائے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین دل بڑا کریں اور جن کے ایک سے زائد بیٹے ہیں، اپنے بیٹوں کو علیحدہ رہائش کی ترغیب دلاتے ہوئے اپنی زندگی خود سے بنانے اور سنوارنے کا موقع دیں۔دونوں معاشروں کے تقابلی موازنے کی باتیں تو کافی ہیں مگر یہ سب کسی علیحدہ مضمون کا تقاضا کرتی ہیں کسی اور وقت سہی۔

ریاض الدین مبارک: یا ایہا الدبستانيو! اسمعوا وعوا: ہمارے درمیان سید مکرم نیاز صاحب کی شخصیت کا ہونا ایک شرف ہے۔ جناب والا کی ورسیٹالیٹی اور گوناگوں ذات گرامی قابل رشک ہے، میری ملاقات تو نہیں لیکن گمان غالب ہے کہ جناب کے سیاہ بالوں کو تجربات فکر وعمل نے اندر سے ضرور سپید کردیا ہوگا! ماشاء اللہ اپنے جلو میں تجربات کا گنجینہ گرانمایہ رکھتے ہیں۔ ایک انجینئر عموما ادب سے اسقدر ذوق کہاں رکھتا ہے! لیکن مکرم صاحب نہ صرف ذوق رکھتے ہیں بلکہ شوق بھی رکھتے ہیں اور اردو ادب کو نئے زاویے سے پرکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ان کے جوابات دیر سے ہی سہی بڑے نپے تلے اور خوبصورت پیرایے میں آرہے ہیں، کاروباری دنیا کے علاوہ ایک آئیڈیل باپ کی حیثیت سے ان کی مصروفیت نے ہمیں انٹرویو کا دورانیہ بڑھانے پر مجبور کردیا۔ اب بھی بہت سارے واقعات کا ذکر وجائزہ باقی ہے جبکہ بہت سوالات اب تک آئے بھی نہیں اور جو آئے ان میں سے کچھ اب بھی تشنہ ہیں! اس لئے ایڈمن حضرات نے مشورے کے بعد یہ طے کیا ہے کہ انٹرویو کا یہ سلسلہ مزید تین دن بڑھایا جائے ۔۔۔ تب تک آپ سب لوگ ان سے بھر پور سوالات کریں اور ان کے تجربات سے حتی المقدور استفادہ کرتے رہیں۔شکریہ!
مبالغہ تو کچھ زیادہ ہی ہو گیا حضور… ایک واقعہ یاد آیا… ایک بار گوگلنگ کر رہا تھا تو مجھ سے متعلق ایک فقرہ نظر آیا کچھ یوں :
“سید مکرم نیاز ایک بہترین انشائیہ نگار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں ایک گہری فکر پائی جاتی ہے۔”
مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ‘کتاب کی واپسی’ سے… میں تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا… کہ ہمارے ہاں اردو تحقیق کا کیا معیار ہو گیا ہے استغفراللہ
یہ فقرے ڈاکٹر ہاجرہ بانو کے پی۔ایچ۔ڈی مقالے میں شامل تھے، مقالہ کا عنوان: اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگار
میں نے اپنی ف.ب ٹائم لائن پر تنقیدی پوسٹ لگائی کہ: پچاس باون افسانوں کے بیچ دو چار انشائیے لکھ ڈالنا اگر تخلیق کار کو بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگاروں کی صف میں لے جا کھڑا کرتا ہے تو سبحان اللہ… اردو تحقیق کی عمر دراز ہو ۔

شمس الرب: مطلب آپ نے وہ کیا جس کے لیے انگریزی میں ایک اصلاح ہے:egosurfing. آپ کے ذہن میں egosurfing کرتے ہوئے کیا تھا؟ اس عمل کے نفسیاتی پہلووں پر روشنی ڈالیں۔ اس کو تھوڑا وسیع کرکے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ego سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ یہ انسان کے لیے کس حد تک ضروری ہے؟ اس کے مفید و نقصاندہ دونوں پہلووں (اگر آپ ایسا سمجھتے ہوں تو) کی نشاندہی کریں؟
واللہ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھ جیسا net-savvy بھی ego-surfing اصطلاح سے اب تک ناواقف تھا، آپ کے بتانے پر معلوم ہوا۔
لاعلم ہونے کا خیر یہ مطلب بھی نہیں کہ میں اس کا قائل نہیں۔ البتہ میں اس کا مطلق قائل نہیں، ہاں تحقیقی یا معلوماتی مسئلہ ہو تو الگ بات ہے۔ جیسا کہ اسی متذکرہ انشائیہ ‘کتاب کی واپسی’ سے متعلق بات ہے۔۔۔ یہ حیدرآباد کے طنز و مزاح رسالے “شگوفہ” کے ساتھ ساتھ پاکستانی رسالے “دوشیزہ” میں بھی شائع ہوا تھا۔۔۔ کسی پاکستانی دوست نے بتایا کہ انہوں نے کسی ویب سائٹ پر یہ انشائیہ پڑھا ۔۔ غالب گمان تو یہی ہوگا کہ امیج شکل میں پڑھا ہوگا، مگر پھر بھی میں نے گوگل سرچنگ کی تھی تو وہ پی۔ایچ۔ڈی مقالہ سامنے آیا۔۔۔
اگر میں اگو-سرفنگ کا مطلق قائل ہوتا تو اپنی ٹائم لائن پر تنقیدی پوسٹ کچھ یوں نہ لگاتا:
https://www.facebook.com/taemeer/posts/693014550807481
آپ کے سوال کے مختلف پہلوؤں سے لگتا ہے آپ میرے ego سے اٹھکلیاں کر رہے ہیں جسے ہمارے حیدرآباد میں چنے کے جھاڑ پہ چڑھانا مراد لیا جاتا ہے۔
جائز اور حدِ اعتدال میں تعریف و تحسین حاصل کرنا انسان کا بجا حق ہے۔۔۔ یہ اس کی انا کی تسکین بھی ہے۔ انا کی تسکین نہ ہو تو کوئی نہ آگے بڑھ پائے، نہ ترقی کر سکے اور نہ ہی اپنے خیال و فکر کو وسعتِ پرواز عطا کر سکے۔۔۔ ہاں استثنائی مثالیں ایک مختلف معاملہ ہے۔لیکن دوسری طرف یہ بڑا نازک معاملہ بھی ہے۔۔۔ بال سے باریک تلوار سے تیز پل پر چلنا صرف شادی شداؤں کا کرتب نہیں۔۔۔ اپنی انا کو قابو میں رکھنا بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پر مبنی ہے!

جاوید مدنی: الحمد لله، کئی سارے جوابات آپ کی خاموشی کے اسباب نے دے دیے، کامیاب ازدواجی زندگی کا فن،بچوں کے ہاتھ میں موبائل کا صحیح استعمال۔جب آپ کچھ نیا پیش کرنا چاہتے ہیں تو اسے سوچنے کی یا نیا فکرہ پیش کرنے کی ترکیب کیا ہوتی ہے؟
میں اور میری اہلیہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل یا اسمارٹ فون کے قائل نہیں ، یا یوں سمجھیں کہ انھیں علیحدہ سم کے ساتھ اسمارٹ فون دلانا درست نہیں سمجھتے۔ (تاوقتیکہ وہ ڈگری کالج میں نہ آ جائیں)- میرے کسی بچے کے پاس اسمارٹ فون تو دور، موبائل بھی نہیں ہے۔ ہاں بڑا لڑکا کالج میں ہے تو اسے وہی پرانا نوکیا 3310 دینا پڑا، اور کالج میں پابندی یہ ہے کہ طلبہ صرف وہی موبائل فون استعمال کریں گے جس میں انٹرنیٹ اور کیمرہ نہ ہو۔ لیکن بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے دور رکھنا بھی صحیح نہیں۔ لہذا بچوں کو اجازت ہے کہ اپنی ماں کا فون استعمال کریں جس میں گھر کا وائی فائی ہے اور پانچوں بچوں کا مشترکہ ایک ٹیب بھی جس میں وائی فائی سہولت ہے۔آج کے بچے موبائل ٹیکنالوجی کی وہ وہ جانکاری رکھتے ہیں جو ہم جیسے سائبر دنیا کے کھلاڑی بھی جلد سمجھ نہیں پاتے ۔ اسمارٹ فون کی جس سہولت کو دریافت کرنے یا جاننے یا سمجھنے میں میری عمر کی نسل دو دن لگاتی ہے، اسے چوتھی جماعت میں زیرتعلیم میری بیٹی دو گھنٹے میں خود بخود سمجھ جاتی ہے ۔یہ فور-ڈی جنریشن ہے غالباً۔
کوئی نئی چیز پیش کرنے کی ترکیب
اس پر میں دو چار ہفتے مسلسل غور کرتا ہوں ۔ اور غور و فکر کے یہ معاملات اس وقت زیادہ ذہن میں چلتے ہیں جب میں گھر سے دفتر یا دفتر سے گھر کا قریب ایک گھنٹہ طویل اور ٹریفک و آلودگی سے پُر راستہ بائک پر طے کرتا ہوں۔ پھر کتب اور انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیق و تفتیش کا دورانیہ کوئی ایک ہفتہ چلتا ہے ۔ پھر خاکہ بنانے اور لکھنے کا مرحلہ ، جو step-by-step چلتا ہے۔

عبدالحسیب مدنی: آپ کی نظر میں ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے دو بنیادی اصول کیا ہیں ؟
1) جی ہاں!! 2) خاموشی!!

عبدالحسیب مدنی: کسی بھی شخص کو سماجی زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے عملا کن باتوں پر توجہ رکھنی چاہیے؟
عمر کے ہر دور کے لیے مختلف ترجیحات ہوتی ہیں ـ بیس سال کے بعد سے ہر ایک دہے کو ایک مختلف دور سمجھ لیں
1) 20-30
2) 30-40
3) 40-50

1)
اعلی تعلیم
مسابقتی امتحانات کے لیے سنجیدہ جدوجہد
کوئی بھی اچھی یا معمولی ملازمت حاصل ہو، اس پر منحصر ہونے کے بجائے مخصوص یا پسندیدہ میدان میں زیادہ سے زیادہ لیاقت و قابلیت حاصل کرنے کی جدوجہد

2)
ہر قسم کے موضوعات پر کچھ اچھی مفید کتب کے روزانہ مطالعہ کی عادت
عزیز و اقارب، سسرال، دوست احباب سے اعتدال و میانہ روی کے سماجی روابط کی برقراری
شریک حیات کو ہر شرعی و جائز معاملے میں بھرپور تعاون
بچوں کو مناسب وقت دینے کی امکان بھر کوشش

3)
کچھ وقفہ سے لکھوں گا…. ویٹ

ریاض الدین مبارک: سعودی عرب کا کوئی ایسا واقعہ شیئر کریں جس میں سعودی نیشنل بھی ایک حصہ ہو اور آپ کے ذہن میں انمٹ نقش کی طرح ثبت ہو؟
وسیم محمدی: دو کریں مکرم بھائی….. ایک مثبت ایک منفی
سعودی عرب کے تو کئی واقعات ہیں ۔ فی الحال ایک منفی واقعہ بیان کروں گا جو ایک بڑا ڈراؤنا خواب رہا ۔
جیسا کہ کہا تھا کہ دسمبر 2000 میں خروج پر حیدرآباد لوٹ کر بعد از شادی خانہ آبادی ستمبر 2001 میں دوبارہ سعودی عرب میں وارد ہوا تھا۔ جس کفیل کا آزاد ویزا مجھے فراہم کیا گیا تھا، اس کفیل سے بڑی پریشانی اٹھانا پڑی۔ سال بھر بعد اقامہ تجدید چار پانچ گنا زائد رقم لے کر اس نے کروا کر دیا پھر کہہ دیا کہ جلد نقل کفالہ کروا لوں۔ اتفاق سے ٹرانسفر نہ کرا سکا، پھر 6 ماہ بعد میں اس کے پاس گیا کہ ایک بار خروج و عودہ (Exit-ReEntry) لگا کر دے، میں ایک ماہ بعد چھٹی سے واپس آ کر ٹرانسفر کروا لوں گا (کیونکہ پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی تھی اور میں گھر جانا چاہتا تھا)۔ اس نے پیسے لے کر کروا دیا مگر راستے میں جب میں نے پاسپورٹ چیک کیا تو خروج نہائی یعنی فائنل ایگزٹ کا اسٹامپ تھا۔ دوڑا دوڑا کفیل کے پاس واپس گیا مگر اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ میں جس کمپنی میں کام کر رہا تھا، وہاں کے سعودی سی-ای-او نے کمپنی مندوب کی مدد سے کفیل سے رابطہ کروایا۔ پھر کمپنی مندوب نے مجھ سے 6000 ریال لیے اور کفیل کو دے کر اس خروج نہائی کو کینسل کروایا۔ جس میں کوئی 5 ماہ کی مدت لگی اور یوں دوبارہ اقامہ تجدید کی تاریخ سر پر آ گئی ۔ کفیل نے ہاتھ اٹھا لیا کہ وہ تجدید نہ کروائے گا، کسی ایجنسی سے کروا لوں ۔ ایجنسی سے کروانے کا مطلب زائد رقم ادا کرنا ۔ خیر وہ بھی کیا اور اس سعودی ایجنٹ نے کوئی 6 ماہ بعد تجدید کروا کر نیا اقامہ ہاتھ میں دے دیا۔ (واضح رہے کہ ان دنوں پاسپورٹ سائز کا 8-10 صفحات کا ہوا کرتا تھا ۔ شاید 2008 یا 2010 میں لیمینیٹڈ کارڈ بنا ہے)۔
اقامہ لے کر میں ایگزٹ ری-انٹری کروانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اقامہ نمبر دیکھ کر شاک لگا۔کمبخت سعودی ایجنٹ نے ڈپلیکیٹ اقامہ بنوا کر چونا لگا دیا تھا یعنی اس پر نمبر وہ پرانے والے اقامے کا تھا، جو شادی سے پہلے والے سعودی قیام کا اقامہ تھا۔ اب اقامہ تبدیل کروانے کا مطلب سیدھا جیل جانا تھا۔ اتفاق سے معلوم ہوا کہ ایک قریبی حیدرآبادی دوست کے تعلقات سعودی جوازات میں کام کرنے والے ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار سے ہیں ۔ اس دوست نے میرا کام اس سعودی عہدیدار کے حوالے کیا جس نے پہلے تو بڑی مشکلات درپیش آنے کا خدشہ بتایا مگر بہرحال کوئی 3 ماہ بعد اس نے صحیح کام کروا دیا۔صحیح اقامہ ہاتھ آتے ہی میں نے ایک ایجنٹ کو ایگزٹ ری-انٹری کی رقم دی۔اس معمولی سے کام کی تکمیل میں بھی ایجنٹ نے تین ماہ لگا دیے۔بہرحال میں جب حیدرآباد پہنچا اور بیٹے کو پہلی بار گود میں لیا تو وہ ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا۔تین ماہ بعد واپس ریاض پہنچ کر اقامہ ٹرانسفر کرانے کے لیے ایک ڈمی کفیل سے بات کی تو پتا چلا کہ میرے اس پرانے کفیل نے میرے خلاف پولیس میں شکایت لگا دی تھی کہ میں اس کے پاس سے بھاگ گیا ہوں۔ یہ چکر ختم کرانے اور ڈمی کفیل کے پاس نقل کفالہ کرانے میں بڑی پریشانی اٹھانی پڑی اور پیسوں کا نقصان بھی ۔ مجموعی طور پر اس سارے قصے کے اختتام میں کوئی 30 ہزار ریال کے اخراجات ہوئے۔پھر جب ایک اچھی کمپنی کا آفر ملا تو میں نے شرائط یہی رکھیں کہ سب سے پہلے ڈمی کفیل کے پاس سے اس کمپنی میں اقامہ ٹرانسفر اور ٹرانسفر کے فوری بعد فیملی ویزا چاہیے ۔ دونوں شرائط منظور ہونے پر ہی کمپنی جوائن کر سکتا ہوں۔شرائط منظور ہوئے ، میں نے فیملی اپنے پاس بلائی اور پھر میں نے سعودی عرب 2016 میں چھوڑا بھی اسی کمپنی کی ملازمت سے۔
اور یہ سعودی لائف کے مثبت واقعات
جس کمپنی کے متعلق ابھی بیان کیا، اس کے وائس پریسیڈنٹ (عبدالعزیز الیوسف) کے ساتھ ایک دوسری کمپنی میں، میں نے اپنی شادی سے قبل والے دور میں ڈیڑھ سال کام کیا تھا۔ میں نیا نیا سعودی وارد تھا ۔ جدہ میں قیام پذیر والد صاحب کو جب انجائینا اٹیک ہوا تو میں نے انھیں مستقلاً حیدرآباد واپس بھیج دینے کا ارادہ کیا۔ جس کے لیے رقم درکار تھی، میں نے الیوسف صاحب کو اپلیکیشن دی کہ کمپنی سے لون چاہیے ۔ انھوں نے پرسنلی مجھے بلا کر وجہ پوچھی اور کہا کہ کمپنی نئے ملازمین کو قرض نہیں دیتی مگر تم مجھ سے تین ہزار ادھار لے لو اور ہر ماہ 500 لوٹا دیا کرنا۔ یہ کہہ کر انھوں نے اسی وقت جیب سے 3000 ریال نکال کر دے دیے۔
انہی الیوسف صاحب کے متعلق جب مجھے 2006 میں معلوم ہوا کہ ان کے تعلقات دارالسلام اشاعت گھر سے ہیں تو میں نے انھیں پرسنل لیٹر لکھ کر دیا کہ میں انٹرنیٹ پر دعوت دین کا کام کرتا ہوں اور اس ضمن میں صحیحین اور سنن اربع کے اردو تراجم خریدنا چاہتا ہوں، مگر قیمت بہت زیادہ ہے، آپ ڈسکاؤنٹ پر دلائیں۔ انھوں نے دوسرے دن اسی لیٹر پر جواب لکھ کر بھیجا کہ میں دارالسلام سے تمام کتب کی کوٹیشن والی رسید لا کر دوں۔ میں نے لا کر دے دی۔ کچھ دن بعد انھوں نے وہ رسید مجھے دی اور کہا کہ دارالسلام جا کر تمام کتب یہ رسید بتا کر لے لوں۔ رسید پر Paid کا اسٹامپ تھا۔
یہ رئیل اسٹیٹ کمپنی 2013 میں دو مختلف کمپنیوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ میں لیزنگ اور مارکیٹنگ ڈویژن میں تھا۔ ہمارے ڈویژن کے سربراہ کے طور پر ایک نیا سعودی نوجوان (بنام مازن قندیل، عمر یہی کوئی 26-27 سال) وارد ہوا جو امریکی تعلیم یافتہ تھا، فصیح انگریزی گفتگو کرنے والا۔ کشادہ دل، نرم مزاج اور ملنسار۔ مالیاتی سال کے اختتام پر بونس اور اضافہ تنخواہ کے سلسلے میں وہ اپنے ڈویژن کے ہر کارکن کا انٹرویو لیتا، مسائل اور توقعات دریافت کرتا اور اپنی رپورٹ اوپر بھیجتا۔ پہلے سال میں 10 فیصد تنخواہ اضافہ اور دو سیلری بونس ملا۔ جبکہ دوسرے سال میں 5 فیصد تنخواہ میں اضافہ اور آدھی سیلری بونس ملا ۔ مجھے شاک اس لیے لگا کہ میرا کام بہت زیادہ تھا اور شام میں دیر تک روک کر مازن نے بہت کام لیا تھا ۔ میں نے مازن کو لیٹر لکھ کر سخت برہمی ظاہر کی اور ایک دن بنا بتائے ناغہ کر ڈالا۔ چھ ماہ بعد اچانک ڈیڑھ سیلری بونس ملا ۔ بعد میں پتا چلا کہ میری خاطر مازن نے اعلی عہدیداروں سے سخت جنگ کی تھی کہ اس کے ڈپارٹمنٹ کے کارکن کو کیوں دلگرفتہ کیا گیا۔
تیسرے سال میرے والدین کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے تو میں چھٹی سے آنے کے دو ماہ بعد ہی دوبارہ دس دن کے لیے جانے کی درخواست دی اور وجہ بتائی۔ مازن نے فوراً اپروو کیا اور علیحدگی میں بلا کر پوچھا کہ کچھ زائد رقم چاہیے تو وہ دے سکتا ہے۔میں نے انکار کیا اور کہا کہ صرف جلد جانا ہے یعنی کل۔ پھر اگلے ماہ سروس کمیشن کے تحت سرکاری ملازمت کا انٹرویو تھا، دوبارہ چھٹی کی درخواست دی وہی والدین کی صحت خرابی کے ذکر کے ساتھ ۔ وہ بھی اپروو ہوئی ۔دو ماہ بعد تقرر نامہ ہاتھ آیا تو میں نے استعفی کی درخواست مازن کو ایمیل کر دی۔ اس نے بلا کر لمبی گفتگو کی ۔ تنخواہ میں اضافہ اور دیگر سہولیات وغیرہ کا آفر دیا ۔ میں نے نرمی سے کہا کہ والدین کے سبب مجھے بہرصورت جانا ہے۔ آخرکار اس نے رنجیدگی سے درخواست منظور کی اور ڈپارٹمنٹ کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کے تعاون سے ایک لبنانی ہوٹل میں احقر کے اعزاز میں فیئرویل تقریب کا انعقاد کیا جہاں ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ہدیہ بھی عنایت کیا گیا۔

ریاض الدین مبارک: ویری پرسنل ….. مکرم بھائی آپ کی دلچسپیاں کیا ہیں اور کھانے میں سب سے زیادہ کونسی ڈِش محبوب ہے؟
میں نے اپنی پسندیدہ ڈش سے متعلق اپنے بچوں سے پوچھا، سب کا یک زبان کہنا تھا کہ:کھچڑی + کھٹا + پاپڑ + اچار… بگھارا کھانا + قورمہ
دلچسپیوں میں مطالعہ کتب و رسائل ،ویب ڈیزائن

شوکت پرویز: مسلمانوں میں عربی زبان کی طرف رغبت دلانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اور کیا آپ کو کبھی لگا کہ اردو کی محبت میں عربی سے غفلت ہو جاتی ہے؟
میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ فی الحال جو ختم قرآن کی روایت ہے وہ کافی ہے۔پہلی ترجیح مادری زبان کے تحفظ کی ہے یعنی اردو۔ہاں جن کی مادری زبان اردو نہیں مثلاً کیرالہ یا تمل ناڈو والے، ان کو عربی زبان دانی کی طرف غور کرنا چاہیے۔ کیرالہ والے تو عمل کر رہے ہیں۔ سعودی عرب جو بھی ملیالی آتا ہے، عربی پر گزارہ لائق عبور رکھتا ہے۔بچے کو جب تک مادری زبان پر لکھنے پڑھنے کا عبور نہ ہو بمشکل دوسری زبان سیکھنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔

عبدالرحمن یحی: مکرم بھائی! سعودی عرب کے علاوہ آپ نے کچھ اور ملکوں کا بھی سفر کیا ہے؟ اور ہندوستان میں کون کون سے علاقے آپ دیکھ چکے ہیں ترجیحی بنیاد پر اور مزید کن علاقوں کو دیکھنے کی خواہش ہے اور کیوں؟
سعودی عرب کے علاوہ : پاکستان (صرف کراچی، 10 دن) ، مسقط (چار دن) ، دبئی/شارجہ (ایک ماہ)
ہند میں :بنگلور ،میسور، اوٹی، بیدر، پونے، گوا، ممبئی ، بھوپال، دہلی ، کولکاتا، آگرہ، فتح پور سیکری، رامپور،بنارس
غیرمنقسم آندھرا پردیش میں : کرنول، نندیال، گدوال، یمگنور، نندی کٹکور ، گنتکل، گنٹور، ورنگل، محبوب نگر، نظام آباد
دیکھنے کی خواہش : جےپور، نینی تال، شملہ، دارجلنگ ، امرتسر ، لدھیانہ ، جموں و کشمیر ، احمدآباد ، پٹنہ، چنئی، تروپتی ، وشاکھاپٹنم ، کیرالہ

عبدالرحمن یحی: اردو ویب پورٹل بنانے کی تحریک کہاں سے پیدا ہوئی اور کب آپ نے اس کو لانچ کیا؟ اس میں آنے والے خرچ پر بھی تھوڑی سی معلومات فراہم کردیں تو بہتر رہے؟
نیوز پورٹل کے اخراجات:
کسی بھی ویب سائٹ کے قیام میں دو باتیں لازمی ہیں:
1۔ ڈومین خریداری (سالانہ ادائیگی) (تقریباً 600 تا 800 روپے سالانہ)
2۔ ہوسٹنگ اسپیس خریداری (سالانہ ادائیگی) (تقریباً 1500 تا دس ہزار روپے سالانہ، منحصر کرتا ہے کہ کس قسم کی اور کتنی جی۔بی کی اسپیس لی جاتی ہے؟)
یہ دونوں معاملات تاحیات انٹرنیٹ ، ظاہر ہے کہ ممکن نہیں۔ کیونکہ کبھی نہ کبھی عدم ادائیگی ہوگی اور ساری محنت انٹرنیٹ کی دنیا سے غائب!!لہذا میں نے پہلے ہی دن کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اپنی محنت کا منتخب مواد صرف وہاں رکھا جانا چاہیے جہاں کوئی “ویب اسپیس” دیوقامت کمپنیاں تاحیات انٹرنیٹ مفت میں فراہم کرتی ہوں۔ اور یہ سہولت گوگل جیسی دیوقامت کمپنی نے پہلے دن سے اپنے صارفین کو جی-میل کی طرح مفت میں فراہم کر رکھی ہے۔ یعنی بلاگ کی شکل میں، جسے سائبر دنیا میں “بلاگ اسپاٹ [Blogspot]” یا “بلاگر [Blogger]” کہا جاتا ہے۔اب اس بلاگ کو ویب سائٹ یا ویب پورٹل کی شکل میں تخلیق کرنا کسی بھی ویب ڈیزائنر یا ڈیولوپر کے لیے کوئی بڑا مشکل کام نہیں۔یہی سبب ہے کہ گوگل بلاگ اسپاٹ پر میرے کوئی 30 کے قریب بلاگ موجود ہیں، جن میں “تعمیر نیوز” بھی ہے اور “اردو کڈز کارٹون” بھی۔اس طرح ہوسٹنگ اسپیس کے اخراجات سے میں تو بچا ہوا ہوں۔
اس میں شک نہیں کہ گوگل سرور کے بلاگ پر مواد کے تاحیات انٹرنیٹ محفوظ رہنے اور عام پبلک کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہنے کی ضمانت ہے مگر ظاہر ہے کہ معاملہ اگر مفت کا ہے تو کچھ پابندیاں یا خامیاں بھی ہیں۔ جس طرح ہوسٹنگ اسپیس خرید کر اپنی مرضی کی ویب سائٹ “ورڈ پریس” یا “جوملہ” یا کسی اور سافٹ ویئر کے ذریعے بنائی جا سکتی ہے اس طرح گوگل کے “بلاگ اسپاٹ” پر بنانا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔

ریاض الدین مبارک: مکرم بھائی آپ اپنی ویب میگزین “تعمیر نیوز” پر کچھ روشنی ڈالیں؟
ڈیجیٹل جرنلزم یعنی آن لائن صحافت موجودہ دور میں اردو زبان کے لیے بھی کوئی نئی بات نہیں رہی ہے ۔ مشہور زمانہ بی۔بی۔سی کی ویب سائٹ ، وائس آف امریکہ ، جرمنی سے ڈوئچے ویلے ، صدائے روس ، مشرق وسطیٰ سے العربیہ اور پڑوسی ملک پاکستان سے جنگ ، ڈان کے علاوہ سینکڑوں قومی و علاقائی اخبارات کی اردو ویب سائٹس عرصہ دراز سے انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ ڈیجیٹل جرنلزم یعنی عصری آن لائن صحافت کی یوں تو ڈھیر ساری خصوصیات گنائی جا سکتی ہیں مگر سب سے بڑی خصوصیت مطلوبہ مواد کی فوری تلاش میں سہولت کی عام دستیابی ہے ۔
گلوبل ولیج یا گوگل ایج کے دور کا صارف آج کسی نشریاتی ادارے یا اخباری ایجنسی کا قیدی نہیں رہا ہے ۔ وہ براہ راست انٹرنیٹ کے کسی سرچ انجن کے سہارے مطلوبہ مواد اپنے مطالعے یا اضافۂ معلومات کی خاطر حاصل کر لیتا ہے چاہے وہ داعش جیسی انتہا پسند تنظیم سے متعلق مواد ہو، یا مسلم دنیا کی کشمکش کی صورتحال یا برصغیر کی سیاست و سماجیات کے اتار چڑھاؤ کے مسائل ہوں یا کھیل و تفریح کی دنیا کی خبریں ہوں۔ دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہیں جسے کی۔بورڈ یا موبائل کے ذریعے چند الفاظ کو لکھ کر اس سے متعلق تازہ ترین خبر یا معلومات حاصل نہ کی جا سکیں۔
2012 میں جب میں نے دیکھا کہ ہندوستان کے تقریباً تمام اہم اردو اخبارات اپنے پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ویب ایڈیشن جاری تو کرتے ہیں مگر ان کی اکثریت یونیکوڈ تحریر پر مبنی نہیں۔ یہی سبب تھا کہ جب بھی کسی دن کے اخباری موضوع سے متعلق اردو گوگل سرچ میں نے کی، عموماً لنکس پاکستانی اردو ویب سائٹ کے ہی ملے۔ اور یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ چھوٹی خبر ہو کہ بڑی ، پاکستانی نقطہ نظر سے شائع کی جاتی ہے جس میں سنسنی خیزی اور ہند مخالف جذبات آسانی سے محسوس ہوتے ہیں۔ میں نے حیدرآباد اور اپنی ریاست کے چند اردو اخبارات کو آفر بھیجا کہ اردو یونیکوڈ اخباری ویب سائٹ بنا کر دوں گا۔ مواد روزانہ آپ اپ-ڈیٹ کر لیا کریں۔ مگر افسوس کہ کسی نے بھی گھاس نہیں ڈالی۔ تب میں نے اپنے ایک حیدرآبادی دوست کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ ہم حیدرآباد کے تین روزنامے سیاست، منصف اور اعتماد سے چند خبریں منتخب کریں گے اور انھیں خود کمپوز کر کے شام میں اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں گے۔ میرے دوست صرف ایک ہفتہ ساتھ دے سکے پھر ہمیشہ کے لیے اس موضوع سے فرار کی راہ اپنا لی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ادارہ ہو تو ٹیم بنا کر کام کیا جا سکتا ہے وگر نہ فرد واحد کو ہی سارا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے ۔ 15/دسمبر 2012 کو آن لائن روزنامہ نیوز پورٹل کے طور پر “تعمیر نیوز” کو لانچ کیا تھا۔ اس دن سے کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب کم از کم سہی، کوئی ایک خبر یا مضمون ویب پورٹل پر نہ لگا ہو۔
پھر جب مجھے محسوس ہوا کہ روزانہ خبریں کمپوز کرنا اور پھر انھیں ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنا، یہ دو دو کام ایک بندے کے بس کی بات نہیں تب کمپوزر کو ڈھونڈنے کی دوست احباب سے درخواست کی۔پہلے نظام آباد (تلنگانہ) کے ایک نوجوان کمپوزر صاحب نے معاوضہ کے ساتھ کئی ماہ ‘تعمیر نیوز’ کی رفاقت نبھائی اور پھر بعد میں مالیگاؤں کے ایک کمپوزر صاحب قلیل معاوضے کے ساتھ آج تک “تعمیر نیوز” سے جڑے ہیں، جن کے اس طویل تعاون کا میں ممنون و مشکور ہوں۔
اپریل 2016 اواخر میں جب میں مستقلاً حیدرآباد لوٹا تو اس کے بعد سے سال بھر تک یہ آن لاین پورٹل کو چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ گزشتہ چند ماہ سے تو خبروں والا معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا اور اب صرف روز ایک مضمون لگانے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ خبروں کی طرف سے لاپروائی برتنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ گزشتہ دو سال کے دوران ہندوستان سے کئی ایک اچھے اور معتبر اردو آن لائن روزنامے، ماشاءاللہ جاری ہو چکے ہیں جن میں تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے حوالے سے “دی وائر” سرفہرست ہے۔

ریاض الدین مبارک: خلاصہ یہ کہ کوئی اہم اور مستقل کام کرنے کے لیے بڑی رقم درکار ہے اس لیے وہ کام جب تک تجارتی انداز میں نہ کیا جائے جاری رکھنا مشکل ہے۔ شوق اور ذوق کو نکھارنے کے لیے بھی رنگ وروغن چاہیے !
میں نہیں سمجھتا کہ بڑی رقم درکار ہے۔ بس زبان و ادب یا پھر مذہب کی خدمت کا سچا جذبہ ہمیشہ قائم رکھیں اور اسے کمزور نہ پڑنے دیں تو راستہ نکل ہی آتا ہے، گوکہ تنقید و طنز کے وار بھی سہنا پڑتے ہیں،مثلاً وہ جو میں نے پہلے کہا تھا کہ بال سے باریک اور تلوار سے تیز پل پر جمناسٹک کے ازدواجی کرتب دکھاتے ہوئے ، اچانک آپ کے پیچھے آواز گونجے کہ :میں پہلے سے بولتی تھی ناں۔ کیا ملا؟ الٹا پیسے ضائع کیے۔وہی دو تین ہزار ہر ماہ کے جمع کرتے تو ان پانچ سالوں میں ایک فور وہیلر تو بھی لے لے سکتے تھے۔
اور آپ کو پل سے گرنے سے بچنے کے لیے مزید حیران کن کرتب دکھاتے رہنے پر مجبور ہو جانا پڑتا ہے!!

ابن کلیم: مکرم بھائی! کسی بھی پورٹل کی تشہیر، ٹریفک اور گوگل ایڈس کے حصول کے لیے کتنے اور کون کون سے (فری اور پے ایبل) طریقے ہیں؟ امید کہ تفصیلی رہنمائی کریں گے…
گوگل ایڈسینس نے پچھلے سال بڑی اچھی خبر سنائی تھی کہ اب وہ اردو ویب سائٹس کو بھی اپنے ایڈسنس کے اشتہارات منظور کرے گا۔یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ اردو بھی اب انٹرنیٹ پر اپنا ایک مضبوط مقام بنا رہی ہے۔ آپ کے سوال کے جواب کوشش کروں گا کہ کسی مضمون کے ذریعے دوں۔

عبدالرحمن سلفی: مکرم بھائی!تلنگانہ کی موجودہ سیاسی حالات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ 2019 کا الیکشن قریب آ رہا ہےکیا حکومت اپنے وعدے کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی یا صرف زبانی جمع خرچ کرتی رہی؟آپ حکومتی عہدیدار ہونے کے ناطے تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں؟
تلنگانہ سرکاری ملازمین کے 3 مطالبات ہیں:
1۔ پے ریویژن کمیشن جولائی تک مل جائے اور معقول اضافہ ہو یعنی 35 تا 45 فیصد کے درمیان
2۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 58 سے 60 کی جائے۔ جبکہ آندھرا پردیش پچھلے سال ہی یہ کر چکا ہے
3۔ پرانی پنشن اسکیم کو بحال کیا جائے (نئی پنشن اسکیم یعنی سی۔پی۔ایس 2004 سے مرکزی حکومت کی جانب سے لاگو ہے اور اس کے تحت موظف ملازم کو تاحیات پنشن نہیں دی جاتی بلکہ ملازمت کے دورانیے کا کوئی 20 فیصد تنخواہ کا حصہ یکمشت یا مرحلہ وار)
اگر ان تین میں سے کوئی دو بھی قبول کر لیے جائیں تو امکان ہے کہ تمام سرکاری ملازمین اور ان کے اقربا کے ووٹ ٹی-آر-ایس کو جائیں گے اور اسی کے بل پر ٹی-آر-ایس دوبارہ منتخب ہوسکتی ہے۔اور غالب گمان یہی ہے کہ وزیراعلیٰ شروع کے دونوں مطالبات یقینی قبول کریں گے۔
ٹی۔آر۔ایس کے خلاف عوام میں ویسے مخالفانہ جذبات نہیں ہیں جیسے پورے ملک میں مجموعی طور پر بی۔جے۔پی کے خلاف ہیں۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان کا ساٹھ تا 70 فیصد طبقہ ٹی-آر-ایس یا اس کی حمایتی جماعتوں کو ووٹ دینے کے لیے رضامند ہے۔ذاتی طور پر تلنگانہ کے موجودہ سیاسی حالات مجھے ٹی-آر-ایس موافق نظر آتے ہیں ۔ کانگریس پچھلے الیکشن کی بہ نسبت اس بار کچھ بہتر مظاہرہ کر سکتی ہے بشرطیکہ راہل گاندھی کے مسلسل مثبت دورے ہوں۔
دوسری افواہ سرکاری حلقوں میں یہ گردش میں ہے کہ کے۔سی۔آر ریاست کی باگ ڈور فرزند کے۔ٹی۔آر کو سونپ کر مرکزی سیاست میں جائیں گے۔

ریاض الدین مبارک: اب دیکھیے انٹرویو مکمل ہوا چاہتا ہے اور ابھی تک آپ نے اپنی ملازمت کے بارے میں روشنی نہیں ڈالی! پلیز اس بابت بھی کچھ بتائیں؟
*حیدرآباد میں سرکاری ملازمت سے محرومی پر سعودی عرب کی طرف پرواز اور کوئی دو عشروں بعد نئی ریاست میں سرکاری ملازمت کے حصول کی خوشخبری پر دوبارہ حیدرآباد میں آمد مستقلاً۔
*یہ خلاصہ ہے اس کہانی کا جسے محض اس لیے سنانا چاہتا ہوں کہ ہمارے زمانے کے نوجوانوں کو حوصلہ ہو اور وہ مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
*1989 میں انجینئرنگ کی تکمیل کے بعد آندھراپردیش کے مختلف سرکاری انجینئرنگ شعبوں میں “اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر” کی گزیٹیڈ پوسٹ والی بڑی تعداد کی جائیدادوں کا، کافی عرصے بعد اعلان ہوا اور میرے کالج کے بیچ سمیت کئی گذشتہ سالوں کے انجینئرنگ گریجوئٹس نے تحریری امتحان میں شرکت کی۔ ایک پوسٹ کے لیے تقریباً 100 امیدوار تھے۔ میرے لیے پڑھنے لکھنے کی اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا سنہرا موقع تھا (واضح رہے کہ میرے اپنے نظریے کے مطابق، مسابقتی امتحان میں امیدوار کا کثرت مطالعہ اکثر اس کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے)۔ الحمدللہ مجھے 67 فیصد نمبرات کے ساتھ تحریری امتحان میں کامیابی ملی اور انٹرویو کے لیے انتخاب ہوا۔ انٹرویو بھی ٹھیک ہی گزرا ۔
چند ماہ بعد سلیکشن لسٹ آئی مگر میرا نام موجود نہ تھا۔ مزید چند ماہ بعد دوسری لسٹ آئی اور دوبارہ مایوسی ہوئی۔ سال بھر بعد آخری مختصر لسٹ میں بھی میرا انتخاب نہ ہو سکا۔چونکہ میں نے بھرپور محنت کی تھی اور عام مسلمان نوجوانوں کی طرح بعد امتحان، اللہ کے دربار سے پوری سنجیدگی سے پنج وقتہ نمازی بن کر رجوع ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ پہلا بڑا ذہنی دھچکہ تھا جس کے خراب نفسیاتی اثرات بھی مزاج پر مرتب ہوئے ۔ ویسے مجھے بعد میں پتا چلا کہ آندھرائی اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے اس انتخاب میں علاقائی تعصب (آندھرا بمقابل تلنگانہ) بھی روا رکھا گیا تھا۔ بہرحال سال بھر بعد میں دل شکستگی کے ساتھ سعودی عرب پرواز کر گیا۔
تلنگانہ کی تشکیل کے بعد جولائی 2015 میں “اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر” کی تقریباً 1000 جائیدادوں کا اعلان ہوا۔ اس مزید سہولت کے ساتھ کہ حدعمر میں 10 سال کا اضافہ کرتے ہوئے، حدعمر کو 44 کر دیا گیا۔ لیکن میں 44 کراس کر چکا تھا۔ تب بھائی اور دوسرے کزنز نے مشورہ دیا کہ تحفظات زمرے کے تحت اپلائی کروں۔
یہاں ایک بات عرض خدمت ہے کہ سعودی عرب کی آب و ہوا نے سماعت کو نقصان پہنچانا شروع جو کیا تو پندرہ سال کے عرصےمیں مجبور ہو کر آلۂ سماعت پر مکمل انحصار کرنا پڑا۔ خیر تو میں نے تحفظات زمرے کو چیک کیا تو پتا چلا کہ ثقل سماعت کے زمرے میں سے حیدرآباد میں صرف ایک پوسٹ محکمہ عمارات و شوارع میں ہے۔ میں نے اسی کو ٹارگٹ بنایا ، اور تحفظات زمرے کے تحت اپلائی کر دیا۔ یاد رہے کہ ہند کی تمام سرکاری نوکریوں میں فزیکل ہینڈی کیپ امیدواروں کو عمر میں 10 سال کی چھوٹ ملتی ہے۔
25 سال بعد دوبارہ انجینئرنگ کتب کو پڑھنا کار مشقت تھا۔ پھر میں نے حکمت عملی برتی۔ پرچہ اول جنرل اسٹڈیز کا ہوتا ہے 150 نمبرات اور پرچہ دوم 300 نمبرات صرف سول انجینئرنگ پر مبنی۔ میں نے پرچہ اول کے مطالعے کو ترجیح دی ۔ آن لائن اخبار چلانے سے حالات حاضرہ کی معلومات پر عبور تھا ہی، بس جنرل اسٹڈیز، تلنگانہ تاریخ کلچر جغرافیہ کا مطالعہ ضروری تھا۔ اور بیچ میں تھا صرف ایک ماہ۔ اتفاق سے بقرعید کی چھٹیوں بعد ستمبر 2015 کو تحریری امتحان تھا ۔ اور میں ان دنوں چھٹی پر حیدرآباد میں ہی تھا۔ خیر تحریری امتحان سے فارغ ہوا۔ میں ریاض میں تقریباً روز کی سروس کمیشن کی ویب سائٹ چیک کرتا تھا کہ رزلٹ کب آئے گا۔ سال 2015 کے آخری دن رزلٹ آیا۔ الحمدللہ کامیابی ملی اور اسنادات کی تصدیق کے لیے 2000 منتخب امیدواروں کو پندرہ دن بعد حیدرآباد بلوایا گیا تھا۔ تین دن کی چھٹی لی اور اپنے خرچے پر حیدرآباد پہنچ گیا۔ میرے پاس سماعت کمزوری کا سعودی گورنمنٹ اسپتال کا سرٹیفیکٹ تھا۔ لیکن پبلک سروس کمیشن خود اپنے خرچے پر گورنمنٹ اسپتال سے منتخب جسمانی معذور امیدواروں کی جانچ کرواتا ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح کا مشہور BERA ٹسٹ ہوتا ہے جس میں مریض کو سلا کر کوئی ایک گھنٹہ دماغ کی لہروں کے ذریعے سماعت کے نقصان کا اصل فیصد معلوم کیا جاتا ہے۔ میرے ٹسٹ کے بعد اس کی رپورٹ براہ راست پبلک سروس کمیشن کو بھیج دی گئی۔ پھر میں واپس ریاض چلا گیا۔ ایک ماہ بعد انٹرویو کے لیے منتخب امیدواروں کا رزلٹ آیا ۔۔ جس میں میرا رول نمبر تحفظات زمرے کے تحت موجود تھا۔ پھر تین دن کی چھٹی لگائی اور اپنے خرچے پر حیدرآباد پہنچ گیا۔ 25 سال بعد دوبارہ انٹرویو کے کمرے میں ، پہلی باری میں نوجوان اور اس دوسری باری میں 48 سال کے قریب، شاید مجھے اور دو چار کو چھوڑ کر تقریباً تمام انٹرویو منتخب امیدوار مجھ سے آدھی عمر کے تھے۔ انٹرویو میں پانچوں ججوں کو میں نے صاف صاف اپنے حالات بتا دیے اور کہا کہ 20 سال سے سعودی میں ہوں۔ اور واپس اپنے وطن لوٹنے کا مقصد پہلے تو والدین اور فیملی کے ساتھ رہنا ہے اور دوسرے جب میں نے دوسرے ملک کو 20 سال اپنی خدمات دیں تو اپنے ملک کو بھی کوئی 10 سال سہی، اپنی خدمات دینا چاہوں گا اگر موقع دیا جائے۔
دو ججز نے ٹیکنکل سوالات پوچھنا چاہے تو میں نے روک دیا اور کہا کہ حضور، میرا عملی میدان پچھلے 20 سالوں میں وہ نہیں رہا جس کے سوالات آپ پوچھ رہے۔ پھر انھوں نے سوالات کا رخ بدل دیا اور سعودی عرب اور ہندوستان کے موازنے پر کئی سوالات پوچھے ۔ جن کے جواب دینا میرے لیے تو آسان تھا۔
ایک دلچسپ سوال یہ پوچھا گیا کہ: اگر آپ کو حیدرآباد چھوڑ کر کسی ضلع میں ڈالا جائے تو جائیں گے؟
اس قسم کے نفسیاتی ٹوٹکے میں تو اچھی طرح جانتا تھا۔ لہذا کہا: جناب عالی، ماں باپ بیمار ہونے ، فیملی کو کچھ مسائل ہونے پر میں انٹرنیشنل سیکٹر کا سفر کرکے دوڑا دوڑا آتا ہوں تو اپنے ضلع سے کسی دوسرے ضلع میں جانے مجھے بھلا کیا پریشانی ہوگی؟
خیر ۔۔۔ ایک ماہ بعد انٹرویو کا رزلٹ ویب سائٹ پر ڈسپلے ہوا اور میرا انتخاب اسی حیدرآباد محکمے کی پوسٹ پر ہوا جسے میں نے شروع دن سے ٹارگٹ بنایا تھا۔مگر ملازمت کا تقرر نامہ ملنے کے بجائے ایمیل آیا کہ پندرہ دن بعد اس منتخب محکمہ (عمارات و شوارع) میں داخل ہو کر اپنے اسنادات جمع کرائیں اور فنگر پرنٹ بھی۔ بھاگ دوڑ کر کے پھر اپنے خرچے پر حیدرآباد کا ایئرٹکٹ بنایا اور تین دن کی چھٹی پر حیدرآباد پہنچ گیا۔ اسنادات کی نقول جمع کروائیں اور پوچھا کہ تقرر نامہ کب ملے گا۔ کہا گیا ایک آدھ ہفتہ صبر کرو۔ ایسا صبر ناممکن تھا کہ میں اپنی جمی جمائی سعودی نوکری کو لات مارنے کا قائل نہ تھا لہذا تیسرے دن واپس ریاض پہنچ گیا۔
پندرہ بیس دن بعد محکمے کے انجینئر ان چیف کا ایمیل آیا کہ تمام امیدوار 26/مارچ کو محکمے کی مرکزی عمارت میں جمع ہوں جہاں وزیر عمارات و شوارع و ٹرانسپورٹ کے ہاتھوں تقرر نامے دیے جائیں گے۔ میرا جانا تو ناممکن تھا، میں نے محکمے کے متعلقہ عہدیدار کو ایمیل کیا کہ ازراہ کرم میرے والد کو تقرر نامہ دیجیے کہ میں فی الوقت ملک سے باہر ہوں۔چونکہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد، سرکاری ملازمین کے تقرر کا یہ پہلا بڑا واقعہ تھا لہذا بڑے پیمانے پر منعقد ہوا ، اخبارات میں تصاویر اور خبریں آئیں۔والد صاحب نے تقرر نامہ اسکین کر کے وہاٹس ایپ پر بھیجا ، اور اسی دن میں نے کمپنی میں استعفی داخل کر دیا ۔
پچیس سال کا یہ سفر اسی رات، بعد نماز استخارہ ، توبہ و استغفار والی نم آنکھوں سے جانماز پر ختم ہوا ۔ اور فجر کے وقت جانماز سے اٹھتے ہوئے مجھے ذہن کے کونے میں احساس ہوا کہ مجھے اب واپس ہندوستان جانا ہے!! بعد کی تفصیل تو روایتی اور رسمی ہے کہ میری فیملی ریاض آئی اور پھر ہم سب اپنے اپنے پاسپورٹ پرخروج نہائی کے اسٹامپ کے ساتھ سعودی عرب سے نکلے اور حیدرآباد پہنچے اور اسی دن میں نے اپنی نئی ملازمت جوائن کر لی۔
مورال آف دی اسٹوری :
اپنے اپنے حساب سے بیان کر لیں ۔
اب اجازت۔ آپ احباب کا بہت بہت شکریہ کہ مجھے اتنے طویل وقت برداشت کیا۔

السلام علیکم

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Ahmad Safi

بہت خوب انٹرویو بھائی مکرم اور فری لانسر ٹیم
احمد صفی
لاھور پاکستان