آہ حلیم… ہائے حلیم… مجھ کو اس کا پتا دے

مکرم نیاز ادبیات

ہمارے حبیب لبیب مرزا اب بھی 90 کی دہائی میں جیتے ہیں، مترنم لہجے میں فون پر گنگنانے لگے:
ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لٹا دے
کہاں کھلی ہاں کھلی ذرا بتا دے
اب اس کا پتا دے ذرا مجھ کو بتا دے
میں اس سے ملوں گا، اک بار ملا دے
یار ملا دے…

آخری مصرع کی تین چار بار تکرار کے بعد پوچھا: “جانتے ہو پاشا، یہاں ‘یار’ سے کیا مراد ہے؟”
ہماری خاموشی پر خود ہی اس طرح ڈرامائی لہجے میں بولے جیسے ابن صفی جاسوسی ناول کے اختتام پر کرنل فریدی جیب سے مجرم نکال کر رکھ دیتا ہے:
“حلیم!!”

اس کے ساتھ ہی مرزا کے تھوک نگلنے کی کراری آواز واضح طور پر سنائی دی۔ بولے:
“واللہ حبیبی! سمجھ میں نہیں آتا روزہ میں روحانی تقویٰ اور جسمانی قوت پیدا کیسے ہو پھر؟ کمبخت وائرس نہ ہوا قرب قیامت کے آثار پیدا ہو گئے… بھلا بتاؤ بغیر حلیم کبھی روزہ کا تصور بھی کیا تھا؟”
پھر وہ دانت کچکچا کر نام بہ نام لتاڑنے لگے:
“شاہ غوث، پستہ ہاؤس، پیراڈائز، ساروی، کیفے 555، کیفے بہار، حیدرآباد ہاؤس، تاج بنجارہ، نیاگرا، شاداب، نایاب، آداب، رومان، سہیل، باورچی، گرانڈ، مدینہ، ہائی لائن، محفل…”

ذرا سانس لینے رکے تھے کہ ہم نے حلق میں مچلتے اشتہا انگیز غراروں پر قابو پاکر کہا: “بس کرو مرزا، اب روزہ کی جان لوگے کیا؟”
“کیا بس کرو میاں؟ کمبختوں نے ایک نامراد فیصلہ کیا کیا، حیدرآباد کی تہذیب، رواج، روایات سب ایک جھٹکے سے بیگن میں ملا دی…”
پھر مرزا کی آواز یک بیک رقت انگیز ہوگئی جب خاتون خانہ کے حوالے سے گھر پر ہی حلیم کی تیاری کا ذکر چھیڑا…

ایک غریب مرزا کا کیا ذکر۔ اس ناہنجار لاک ڈاؤن نے حلیم گو نہ کھلائی ہو مگر تمام شوہر حضرات کو حلیم الطبع بننے پر مجبور ضرور کر دیا ہے۔ ونیز یہ فقرہ تو ان دنوں زبان زد عام و خاص ہو گیا کہ:
گھر میں رہنا ہو تو ڈرنا ہے، لڑنا نہیں ہے!!

تجربہ نے یہ تو سکھا دیا تھا کہ تقاضا کرنا ہو تو بچوں کو پٹا کر ان کی معرفت ہی کرنا چاہیے، اسی میں خود کا ذہنی سکون اور گھر کے ماحول کا اعتدال پوشیدہ ہے۔ مگر برا ہو مرزا کی لن ترانی کا، کچن کی طرف بڑھتی بیگم کو اچانک روک کر مودبانہ عرض کیا:
“ہوٹلوں نے تو اس رمضان ہاتھ اٹھا دیے، تو کیا خیال ہے آج آپ کے دست مبارک و مہارت کی حلیم سے فیضیاب ہوا جائے؟”

بیگم ٹھٹھکیں، رکیں، پلٹیں، دوپٹہ گلے سے نکال کر کمر کے گرد کسا، پھر اس لہجہ میں فرمایا جو اب تک کی گھریلو تاریخ کے مطابق، طبل جنگ کی گھن گرج کا مترادف ہوتا رہا ہے:
“معلوم ہے کچھ گوشت کیا دام چل رہا ہے؟ ایک کیلو ٹماٹے، آلو، بھنڈی، کدو، پھلیاں لا لیے تو ختم ذمہ داری؟ ایک تو آپ کی ذرہ سی زیرہ برابر تنخواہ، اوپر سے آپ کے چہیتے سی ایم کی آدھی تنخواہ کٹوتی کا نادر شاہی حکم… اور نواب صاحب کے تقاضے ہیں حلیم، بریانی، خوبانی کا میٹھا، گردہ کلیجی، بھیجہ فرائی، مٹن مغلائی، چکن تندوری، چاکنہ، نہاری، الم غلم…”

منمناتی آواز میں دہائی دینا چاہی:
“دیکھو بیغم، وہ کچھ ایکسٹرا پیسے بھی تو آنے والے ہیں…”
سرکاری نوکری سے ہٹ کر جو چند مقامی مسلم اداروں کے آن لائن کام ہم انجام دیا کرتے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرنا چاہا۔
“کہاں کے پیسے؟ کتنے پیسے؟ اور وہ بڈھا وعدہ کرکے دیا ٹائم پر، بڑا بول رہا تھا ناں رمضان سے پہلے دے دوں گا… دیا پھر؟ اور یہ چند ہزار میں ہو جاتا سب؟ یہ رمضان اور عید کے خرچے؟ اوپر سے روز روز کی نت نئی فرمائشیں آپ کے پانچ بچوں کی… یہ ہونا کَتے، وہ ہونا کَتے… گویا ان کے ابا پیسوں کا جھاڑ اگا رکھے ہیں دالان میں… ہمی اِچ ہیں صبر کر لے رئیں…”
پھر بیگم کے “صبر کے قصے” جو شروع ہوئے تو پرسوں ایک جگہ پڑھا قولِ زریں بے تحاشا یاد آیا، لکھا تھا:
“بیوی صبر کرتی ہے، بے انتہا صبر کرتی ہے مگر اپنے صبر کا بے انتہا ذکر بھی کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیویوں کے صبر کے حساب کتاب کے لیے ایک نئی قیامت کا اجرا کیا جائے گا”

بہرحال صبر کے اس روایتی پند و نصائح کا اختتام عموماً ایک ہی جملہ پر ہوتا رہا ہے:
“میں پہلے ہی بولتی تھی نکو آؤ سعودی سے نکو آؤ، مگر بڑا شوق تھا قوم کی خدمت کا وطن کی خدمت کا… جیب میں دھیلا نہیں اور چلے قوم کی خدمت کرنے… اور کرو خدمت…”

صاحبو! یہ چند منٹ کی داستان نہیں، زندگی بھر کا خلاصہ ہے، اوکھلی میں سر دیا ہے تو بھگتیے، برداشت کیجیے، صبر کیجیے۔
“کب جاتا کی یہ دلیندر…”
کوکر کی تیز سیٹی پر بیگم اپنے مہان لیکچر کا اختتامی جملہ پھینکتے کچن کی طرف لپکیں۔
“میں اور دلیندر…؟” برہمی کے بگولہ نے اڑان بھرنا چاہی۔
کھٹ سے جواب آیا:
“آپ کو کئیکو بولوں گی، لاک ڈاؤن کو بول ریوں”۔
برہمی کے بگولہ کو شہ مات ہوگئی۔

قصہ مختصر یہ کہ… بیوی بھی عجیب مخلوق ہوتی ہے۔ چیخے گی چلائے گی، لڑے گی روئے گی… مگر شوہر کی فرمائش بھی برابر پورا کرے گی۔
تو یہ رہی گھر میں تیارکردہ خاتون خانہ کی طویل محنت کا نتیجہ: مٹن حلیم!!

جسے بقول ان کے، “گھونٹنے” کی سخت محنت بھی انھیں اپنے “زورِ بازو” سے انجام دینا اس لیے پڑتا ہے ان کے میاں کے بازو صرف قلم کی زور آزمائی میں استعمال ہوتے ہیں۔
یار، جھوٹ کی تو حد ہی نہیں ہے واللہ!!

لیجیے لیجیے، شرمائیے نہیں، دو چمچے سہی نوش تو فرمائیں۔
اور ہاں… چلتے چلتے ایک بار پھر یاد کر لیں:
ڈرنا ہے، لڑنا نہیں ہے! ابھی لاک ڈاؤن باقی ہے!!

***

مکرم نیاز، حیدرآباد میں مقیم، پیشہ کے لحاظ سے انجینئر اور ایک سرکاری محکمہ میں برسرملازم ہیں۔ آن لائن ویب پورٹل “تعمیرنیوز” کے بانی اور اعزازی مدیر ہیں۔ فیس بک پر یہاں پائے جائے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000