سلفیت کے چند پہلو؛ تعبیر و توضیح

رفیع احمد مدنی

کسی نظریے پر جب ایک عرصہ بیت جاتا ہے تو اس کے طرز تعامل میں پہلی سی بات نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی دیکھ ریکھ ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ قابل اصلاح پہلو کی مرمت ہوسکے۔ مگر عمومی طور پر اکثریت یہ ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ جس کی وجہ سے نمائندہ قسم کے افراد دو خیموں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک موجود کی مدح سرائی میں لگا رہتا ہے اور دوسرا موجود کے اعتراف کے ساتھ اس میں درآنے والی کوتاہیوں کو دور کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے۔ اگر وہ معاشرہ روبہ زوال ہے تو اس معاملے پر کھینچاتانی شروع ہوجاتی ہے ورنہ سب مل جل کر اصلاح کا کام کرلیتے ہیں۔
رفیق صاحب کے مضمون “سلفیت اپنے مداحوں اور ناقدین کے نرغے میں” پر ملاحظات کا سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر تحریر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ایڈیٹر



محترم شیخ رفیق احمد رئیس صاحب سلفی کی ایک تحریر تقریبا دو مہینے پہلے سامنے آئی تھی۔ اس کا عنوان تھا ”سلفیت اپنے مداحوں اور ناقدین کے نرغے میں“۔

یاد آتا ہے کہ جب یہ تحریر فری لانسر میں چھپی اور دبستان میں اس پر بات ہوئی، تو بعض دوستوں نے دبے لفظوں میں اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، البتہ بہت سارے احباب نے اس کو فکر انگیز اور اہم تحریر قرار دیا۔ ذاتی طور پر مجھے یہ تحریر پڑھ کر تعجب کے ساتھ کوفت بھی ہوئی۔

مجھے مولانا سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں۔ اس لیے اس وقت اپنے تحفظات کے اظہار سے گریز کیا۔ میں مولانا سے اگرچہ ذاتی طور سے واقف نہیں، مگر اس کا تو علم تھا ہی کہ مولانا منجھے ہوئے قلم کار، اچھے محقق اور مشہور دانشور ہیں۔ ان کی چند تحریریں خود بھی دیکھی تھیں، کئی تحقیقی کام بھی نظر سے گزرے تھے، آپ کی علمی شہرت کا تذکرہ بھی بہت سارے دوستوں اور بزرگوں سے سن رکھا تھا۔ میرے جیسے کم علم کے  لیے اس قحط الرجال میں ایسی علمی شخصیت کا وجود غنیمت اور ان کا غائبانہ احترام ایک بدیہی بات ہے۔

شیخ کی یہ تحریر نظر سے گزری تو تعجب اور صدمہ سے دوچار ہوا اس لیے کہ مجھے یہ تحریر مولانا کے معیار سے فروتر لگی۔ ایسا احساس ہوا کہ یہ تحریر قلم برداشتہ لکھی گئی ہے، اس میں مطالعہ اور مشاہدہ کی گہرائی سے زیادہ جذباتیت سے کام لیا گیا ہے اور بعض حالات میں تو صرف کہی سنی باتوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے مفکرین بھی انہی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

جی چاہتاہے کہ مولانا کی باتوں کے مختلف حصوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کردوں، ممکن ہے مولانا رہنمائی کریں اور یہ تحفظات دور ہوجائیں۔

سلفیت کی تعریف اور اس کا دور، مضمون کا پہلا حصہ ہے۔ مولانا نے اپنی ساری گزارشات کی بنا اسی حصہ میں بیان شدہ حقائق پر رکھی ہے۔

مولانا بخوبی واقف ہیں کہ آج کل سلفیت کے کئی دعویدار ہیں۔ ایک تو شیخ عزام سے ہوتے ہوئے شیخ بن لادن اوران کے اتباع ہیں۔ اسی مناسبت سے بہت سارے لوگ تمام جہادیوں کو سلفی قرار دیتے ہیں۔ سعودیہ وغیرہ کے کچھ اخوانیت زدہ سلفی حضرات بھی ان میں شامل ہیں۔ مین نے تو بعض اخوانیوں کو بھی اس کا حقیقی دعویدار پایا ہے۔

وہ سلفی حضرات بھی دعویدار ہیں جن کی نمائندگی شیخ البانی، شیخ امان جامی اور شیخ ربیع حفظہ اللہ کر رہے ہیں۔ بر صغیر کے سلفی حضرات کا تعامل بھی اسی طرح کا ہے۔ شیخ نے اسی گروپ کو اپنا مخاطب بھی بنایاہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی کس سلفی گروپ کی بات ہورہی ہے ۔

آیئے اب سلفیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ سلفیت کی لمبی چوڑی تعریف اور تعارف میں عقائد کا ذکر بالکل سرسری اور مجمل انداز میں کیا گیاہے، نہ ان کی تشریح ہے اور نہ یہ بتایا گیا ہے کہ سلفیت میں اس کے فہم کا کیا طریقہ ہے۔ خاص طور سے توحید الوہیت (عبادت) کی کیا اہمیت ہے، اسماء وصفات کا کیا تصور ہے، کیا اس پر ہمارا ایمان تفویض کے طریقہ پر ہے جیسا کہ متکلمین کا دعوی ہے یعنی ہمارا ایمان الفاظ پر ہے جن کے کوئی معنی نہیں ہیں، یا ہمارا ایمان اس طرح ہے کہ ان الفاظ کے معانی ہیں، پرتشبیہ و تمثیل کے بغیر۔ اس کا ذکر بہت ضروری ہے لیکن شیخ نے اس کے ذکر کی بھی ضرورت نہیں سمجھی۔ شیخ کی الہیات والی بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غالبا اس کو نہ صرف غیر ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اس کی حیثیت معاذ اللہ لات و منات کی ہے۔

دوسری بات یہ کہ نصوص کتاب وسنت پر عمل سلفیت کا خاصہ ہے البتہ اس پر ہمارا عمل سلف صالح کے فہم کا تابع ہوتا ہے۔ ورنہ معتزلہ سے لے کر زمانہ حال کے اہل قران، منکرین حدیث اور متجددین کا بھی یہی دعوی ہے۔ البتہ ان کا استدلال فہم سلف کا تابع نہیں ہوتا جبکہ سلفیت اس دائرہ کے اندر رہتی ہے۔

سلفیت کے ضمن میں جبر و اکراہ کا ذکر بھی جس پس منظر میں ہے وہ محل نظر ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ انسان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، البتہ اسلام میں آنے کے بعد اس کی پابندی بہرحال لازم ہوگی۔ اس میں مداہنت اور مخالفت دونوں پر گرفت ہوگی، محرمات کے ارتکاب پر شرعی حدود نافذ ہوں گی۔ اس کا لا اکراہ فی الدین سے کوئی تعلق نہیں۔

اب آئیے مولانا کے لمحہ فکریہ کی طرف کہ اہل حدیث علماء کی فکری موضوعات سے بے اعتنائی، اس کے ساتھ ساتھ یہ شق بھی ملالیں کہ سب کا زور صرف اختلافات پر ہوتا ہے اس طرح روح عبادت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم مولانا نے کس سروے اور مطالعہ پر اعتماد کرکے اتنا بڑا دعوی کیا ہے۔ میں خود ہندوستان سے باہر رہتا ہوں اس لیے مولانا کے مشاہدہ کو بالکلیہ رد یا قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تاہم جن جلسوں، کانفرنسوں میں میری شرکت ہوئی وہاں  تقریریں علم، عمل، تقوی کی اہمیت اور اصلاح معاشرہ پر ہی ہوئی تھیں۔ جماعت کے جو اخبارات نظر سے گزرے اس میں بھی یہی چیزیں غالب رہتی ہیں۔ آج کل جمعیت کے منسوبین بہت سارے مجلات شائع کر رہے ہیں۔ میرے سامنے الاعتصام لاہور، التبیان دہلی، ترجمان دہلی، مجلہ اہل حدیث، محدث بنارس کے شمارے ہیں۔ طوالت کاڈر نہ ہوتا تو میں ہر ایک کے ایک ہی وقت و تاریخ کے شمارہ کی تفصیل درج کرتا۔ تاکہ آپ دیکھ سکتے کہ ان سب میں اختلافی مسائل کا ذکر برائے نام ہوتا ہے اور وہ بھی عام طور سے دفاع کے  لیے۔ زیادہ تر زور تو تشریح دین اور اصلاح معاشرہ پر ہی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مولانا کا یہ نوحہ کہاں تک صحیح ہے؟ میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔

عبادت کی روح کے متعلق مولانا کا مشاہدہ ہو سکتا ہے بالکل صحیح ہو۔ پر سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کا کوئی طبقہ اس مرض سے محفوظ بھی ہے۔ جہالت اور بد دینی اہل حدیثوں کا خاصہ نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ کتاب وسنت کے پیرو کار ہیں ان کی حالت نسبتا بہتر ہوتی ہے اور ان کی اصلاح بھی آسان ہوگی۔

مولانا کو بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کی شکایت ہے اور بالکل بجا ہے۔ (میں نے سنا ہے کہ بنگال میں اس پر ابھی بھی عمل ہوتا ہے)۔ لیکن پورا معاشرہ اسی ڈگر پر چل رہا ہے تو دعا کے علاوہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں وراثت کا نظام ہی سرے سے  مفقود ہے۔ خاندانی نظام اور مشترکہ گھرانوں کا رہن سہن جن خطوط پر قائم ہے وہ خود غیر اسلامی ہے۔ اس میں اہل حدیث اور غیر اہل حدیث دونوں مبتلا ہیں۔

مجھے مولانا سے اس کی بھی شکایت ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات بھی قابل اعتراض ہے کہ اہل حدیث عوام اختلافی مسائل کے دلائل جانتے ہیں۔

یہ کون سا انصاف ہے کہ جن مسائل پر اہل حدیث ہر طرف سے ہدف ملامت بنائے جاتے ہیں، اور لوگ ہر طرح سے شک وشبہ پیدا کرتے ہیں؛ اگر ان مسائل کے دلائل وہ اپنے اطمینان کے لیے جانتے ہیں تو جرم کیا ہے۔ کیا علم عیب اور جہالت ہنر ہے۔

اب آئیے سلفیت اور سعودیہ کا تعلق بھی دیکھ لیں۔ مولانا کا دعوی ہے کہ سو سال سے “عالمی سلفیت نے سعودی عرب اور اس کے نظام کو آئیڈیل بنا رکھا ہے”۔

جی ہاں مولانا نے یہی کہا ہے، پھر سعودیہ کی خامیاں گنا کر ان پر تنقید نہ کرنے پر سلفیان عالم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

میرے لیے تو یہ بات ہی باعث حیرت ہے کہ اہل حدیث سعودی عرب کو سلفیت کا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اہل حدیث علماء اور عوام نے 1924 سے سعودی حکومت کی ہر ممکن مدد کی۔ سلطان عبد العزیز نے اکثر علماء سے تعلق پیدا کیا، بعض معاملات میں آپس میں علماء اہل حدیث کے درمیان صلح کے لیے وساطت کی بھی کوشش کی۔

مگر سب جانتے تھے کہ دونوں میں عقیدہ کا اشتراک تو ہے اور فقہ حنبلی جو فقہ اہل الحدیث ہی کا حصہ ہے، اسی پر سعودیوں کا عمل ہے۔ تاہم مذہب حنبلی کی تقلید علماء اہل حدیث کےلیے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہی۔

آل سعود سےخاندان غزنویہ کا تعلق مثالی رہا ہے۔ لیکن اخبار توحید اور اخبار اہل حدیث امرتسر کی فائلیں گواہ ہیں کہ جب امریکن کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی بات آئی، تو مولانا داود غزنوی نے کھل کر اختلاف کیا۔

اہل حدیث سعودیہ کی حمایت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان سے پہلے حرم مکہ ومدینہ میں اہل حدیثوں کا کیا حال تھا۔ یہ تکلیف دہ داستان پھر کبھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ بہت سارے طلباء سعودی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں عقیدہ سلف کی خالص تعلیم ہوتی ہے۔ شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین، شیخ عباد، شیخ فلاتہ، ڈاکٹر ضیاء حفظہ اللہ جیسے وہاں کے اہل حدیث علماء کے علم سے خصوصی طور سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیکن ان میں کوئی بھی نہ سعودی حکومت کو آئیڈیل مانتا ہے اور نہ ہی ان کے لیے فقہ حنبلی کی تقلید قابل قبول ہے۔

مولانا اخبارات میں قرار داد مذمت چھاپ کر، یا مخالفانہ مضامین لکھ کر، یا ہندو پاک کی سڑکوں پر مظاہرہ کرکے ہی نصیحت کا فریضہ نہیں انجام دیا جاتا۔ اس کا دوسرا طریقہ بھی ہے کہ خاموشی سے متعلقہ جہات کو قابل اعتراض چیزوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔ میں شخصی طور سے ایسے کئی واقعات سے واقف ہوں  جن میں علماء حدیث نے یہی کیا ہے۔

لگے ہاتھوں مولانا کی نظر میں سعودیہ کی بعض ناقابل تلافی غلطیوں اور خامیوں پر بھی نظر ڈال لیں کہ مسلمانوں کے معاملہ میں اس نے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی ہے۔ سعودیہ میں  باہر کے عمال کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ

مولانا مہربانی ہوتی اگر ان ممالک کی تفصیل بھی بتا دیتے جو یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔   دوسری بات  یہ بھی کہ سعودی حکومت کی حرم کی پاسبانی کی مدت تو 100 سال سے بھی کم ہے۔ اس سے پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہی سے مکہ مدینہ کی حالت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں تھی۔ فاطمی دور سے لے  کر   تقریبا سن 850 ھجری تک تو شیعہ گھرانے ذمہ دار رہے ہیں۔   مکہ مدینہ اور اس کے مکین تو صرف صدقہ اور خیرات کے مصرف تھے۔ کس دور میں اشراف مکہ یا مدینہ کی یہ پوزیشن تھی کہ وہ عالم اسلام کے محافظ ہیں۔ بینوا توجروا۔ جب پوری تاریخ میں ایسا نہیں ہوا تو اب یہ مطالبہ کیوں۔

تقريبا 1960 یا اس سے کچھ پہلے سعودیہ مالی طور سے خود کفیل ہونے لگا اور پھر تیل کی آمدنی سے دنیا کے مالدار ملکوں میں شامل ہوگیا۔ اس وقت سے مسلم ممالک اور مسلم کاز میں جتنا کچھ سعودیہ نے کیا، تیل کی دولت سے مالامال دوسرے ممالک اس کا عشر عشیر بھی کرتے تو مسلم دنیا کا معاملہ بہت مختلف ہوتا۔ عراق، ایران، لیبیا، امارات، کویت قطر کے پاس بھی تیل کی بے تحاشہ دولت رہی ہے۔ کیا کسی ایک کا مقابلہ سعودیہ سے کرنا ممکن ہے۔

مزدوروں کے ساتھ معاملہ بھی عجیب ہے۔ دولت کی ریل پیل کے ساتھ وہاں  مختلف مشاریع پر کام کرنے کے  لیے   مزدوروں کی ایک فوج آگئی۔ بلامبالغہ ہند وپاک، بنگلہ دیش، افغانستان اور انڈونیشیا  کی بہت بڑی تعداد نے اس سے استفادہ کیا اور بہت سارے خاندان غربت سے نکل کر باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

پانچ چھ ملین مزدوروں میں کچھ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تو کیا بڑی بات ہے۔ اور اس میں سلفیت کا کیا قصور ہے۔ اقامہ کا نظام یہ ہے کہ کفیل عامل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ تقصیر کی صورت میں اس سے ڈیلنگ کا بھی انتظام ہے۔ مزدوروں کے سفارت خانے ان کے حقوق پر نظر رکھتے ہیں۔ پھر غلط کار کس ملک میں نہیںہوتے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں سلفیت کا کیا قصور۔

اب آئیے سلفیوں کی سب سے بڑی خامی کی طرف جن کو “الہیات کے تراشیدہ لات ومنات” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ  تکلیف اس عنوان اور لات ومنات کی پھبتی سے ہوئی ہے۔ یہی نہیں پھر یہ لکچر بھی کہ اس سعی لاحاصل سے کیا فائدہ۔ اب کوئی اس کا ماننے والا ہی نہیں۔ واقعی! کتنا بڑا انکشاف مگر افسوس ہم جیسے کم علم بے خبر ہی رہے۔

امام احمد کا فتنہ خلق قرآن کا مقابلہ کرنا اور پھر اس کے متعلقات، ان سب کو تو اللہ کی صفت سمع اور حرف وصوت اور اسکی صفة کلام میں محدود کیا جاسکتاہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالی کی صفت کلام کا انکار کیا ہے یا اشاعرہ ماتریدیہ کی طرح اس کا اقرار کیا ہے مگر اس کو قدیم اور کلام نفسی سے تعبیر کرتے ہیں  جس میں نہ صوت ہے نہ حرف نہ اس کی کوئی لغت ہے۔ موسی عیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کو ایک متصل اکائی قرار دیتےہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا ڈائرکٹ کلام نہیں، بلکہ جبریل کے الفاظ میں اسی کی ترجمانی ہے۔ اللہ کے واسطے بتائیں کہ اس کی نشاندہی لات ومناة بنانے کے مترادف ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

اسماء وصفات کے مسئلہ کو بعض الفاظ کے مستند لغوی استعمال سے الجھانا بھی عجیب رویہ ہے۔ صفات کے مسئلہ میں امام مالک سے لے  کر   تمام ائمہ کا مسلک متفقہ ہے۔ اس سے تجاوز آدمی کو سلف کے راستہ سے الگ کردیتی  ہے۔

دوسری بات جو میں کہنے جارہا ہوں۔ ڈر لگتا ہے کہ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی  مگر اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔

ہمارے علماء کرام کے یہاں عقیدہ سلف کی طلب تھی اور تلاش بھی مگر ابتدائی عقیدہ کی کتابیں دستیاب نہیں تھیں۔ یہاں تک کہ ابن القیم اور ابن تیمیہ کی کتابیں بھی بہت بعد میں محدود حلقہ تک پہنچیں۔ ہمارے نظام تعلیم میں عقیدہ نسفیہ وغیرہ بطور مقرر پڑھائی جاتی تھی۔اشاعرہ اور ماتریدیہ کی تمام ہی کتابوں میں سلف کا مسلک تفویض بتایا جاتا تھا۔ پھر بیہقی اور خطابی جیسے محدثین اشعریت کے مناد تھے تو ابن حزم جہمیت کے داعی۔ ابن حجر اور نووی بھی بسا اوقات اشعری تاویل کو نقل کرتے تھے۔ ان کتابوں میں جس کو سلف کا مسلک بتایا جاتا تھا اس کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔

مولانا امرتسری نے تاویل کا مسلک انہی لوگوں  سے اخذ کیا تھا۔ یہی وجہ تھی حافظ غازیپوری، مولانا رحیم آبادی اور محدث ڈیانوی صاحب نے مولانا کے موقف کو مجلس آرہ میں   کسی حد تک تسلیم کرلیا تھا۔

لیکن جن علماء کو سلف کی کتابیں مل چکی تھیں جیسے علماء غزنویہ وہ مولانا کے موقف کے شدید مخالف تھے۔ یہ تو مقطع کی سخن گسترانہ بات تھی۔

مولانا نے جن کتابون کا تذکرہ کیا ہے اس کے علاوہ ایک کتاب میں تحفة الأحوذي دوسری کتاب میں عون المعبود اور مجھے بتایا گیاہے کہ ایک مستقل کتاب میں مرعاة المفاتیح میں عقیدہ کے مسائل میں غلطیوں کی نشاندہی کی گئیہے۔

جن لوگوں نے نشاندہی کی ہے انھوںنے  صرف کلام اور اس کے متعلقات پر بات نہیں کی ہے۔ بلکہ اسماء اور صفات کے مسئلہ پر اہل سنت اور سلف کے عقیدہ پر بات کی ہے۔ اس طرح اسماء اور صفات کے سلسلہ میں ان کتابوں میں جو کچھ لکھا گیاہے، اس کا سلف کے مسلک کے مطابق جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

اسماء اور صفات پر ایمان ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے۔ ان اسماء یا صفات کی دور ازکار تاویل اشاعرہ اور ماتریدیہ کا موقف ہے۔ مثلا اللہ تعالی کی صفت “ید” یا تو بغیر معنی کے خالی خولی لفظ ہے یا یہ بمعنی “قدرة” ہے، اور ید کو اس کے اصلی معنی میں جیسا کہ سلف کا مسلک ہے بلا تمثیل وتشبیہ ماننا حرام ہے۔ اسی طرح  صفة “استواء علي العرش” ایسا لفظ ياجمله ہے جس كا كوئى معنی نہيں يا بمعنی قبضہ اور تسلط كے ہے، اصلی معنی میں لینا جیسا کہ سلف کا مسلک ہے جائز نہیں۔ دوسری صفات الہیہ کا معاملہ اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ ضحک، ساق، وجہ، وغیرہ وغیرہ تو اللہ کے سلسلہ میں محال ہیں۔ ان کے ماننے والے حشویہ، مشبہ، اور نہ جانے کن کن القاب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ اب کوئی انصاف سے بتائے یہ لات ومنات ہیں کہ عین دین۔ ہاں  تحریکی مزاج تو اس کو یقیناً لات ومنات ہی مانتا ہے۔ اب ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

آیئے اللہ رب العزت کے اسماء وصفات کے مسئلہ پر ایک نظر اور ڈال لیں۔

میں انتہائی عاجزی سے مولانا سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی تحریر میں “الہیات کے تراشیدہ لات ومنات” کی عبارت :”سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ آج بھی ان مباحث اورمسائل پر گفتگو کی جاتی ہے الخ- سے لے  کر اپنی عبارت کے: “۔۔۔ دور حاضر کے مصنفین کی تحریروں میں تاک جھانک کرنا اور اسے منہج سلف کے خلاف کہہ کر عوام کو گمراہ کرنا کہاں تک درست ہے” ، تک کی مزید تنقیح کردیں تو عنایت ہوگی۔ بظاہر تو یہی سمجھ میں آتاہے کہ مولانا کے نزدیک اسماء وصفات کی تاویل کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کیونکہ مولانا کو دکھ ہے کہ بعض علماء نے ایک اردو کی معروف تفسیر کا مطالعہ کرکے سعودیوں کو مطلع کیا کہ اس میں اسماء و صفات میں تاویل کی گئی ہے۔

مولانا اس کو علمی خدمت یا عقیدہ کی گمراہی پر تنبیہ کے بجائے “دینی اداروں میں منافرت اور مخاصمت کا ادنی نمونہ” قرار دے رہے ہیں۔

مولانا سے بہتر اس بات کوکون جانتا ہوگا کہ سلف کے نزدیک اسماء اور صفات میں فرد کارویہ ہی ولاء و براء اور اہل سنت میں انتساب وعدم انتساب کی بنیاد تھا۔

امام احمد سے بہت پہلے یہ بات مسلم تھی۔ بقول صاحب الفرق بین الفرق: جعد بن درہم پہلا شخص ہے جس نے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کیا تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں اس کو اموی گورنر خالد القسری نے سن 106-110ھ کے بیچ میں کسی وقت قتل کیا تھا۔ پھر یہی قول جس کو تعطیل کا نام دیا گیا جہم بن صفوان نے اپنا لیا۔ جس کو سن 128سے 132 ہجری تک کسی وقت قتل کردیا گیا۔ اعتزال کی بنیاد واصل بن عطاء (م 131 ھ) نے حسن بصری (م 110 ھ) کی زندگی میں رکھی تھی۔ اس گروپ نے بھی تعطیل صفات باری کو اپنا بنیادی عقیدہ بنا لیا۔ انکار اسماء وصفات کو جہم سے مختلف واسطے سے بشر بن غیاث المریسی (م 218 ھ) نے قبول کرکے بعض عباسی خلفاء کی مدد سے پوری امت پرمسلط کرنا چاہا۔ صفت کلام کو لے  کر خلق قرآن کا مسئلہ پیدا ہوا تو امام احمد نے اس کا اعلانیہ مقابلہ کیا۔

لیکن اسماء وصفات کے اثبات کا عقیدہ تو اس سے بہت پہلے سے موجود تھا۔ اس کی ابتدا کے وقت سے ہی ائمہ نے اس موقف کو رد کردیا تھا۔ امام مالک کا مشہورقول:” الاستواء معروف، والکیف مجھول، والسوال عنہ بدعة” اسماء اور صفات کے سمجھنے کا بنیادی قاعدہ ہے۔ امام احمد کی كتاب السنة، الرد علی الجهميه، أمام دارمی  کی نقض الدارمی علی البشر المريسی، امام لالكائی کی شرح أصول السنة، ابوالشيخ كی العظمة، ابن خزيمة كی كتاب التوحيد وغيره اسی منہج كی تشريح كے لیے   ہیں۔ خاکم بدہن کیا شیخ یہ فرمارہے ہیں کہ اب یہ سب نہ صرف یہ کہ سلفی عقائد کا حصہ نہیں رہے بلکہ قصہ پارینہ بن چکےہیں۔

اشاعرہ اور ماتریدیہ نے سلف اور معتزلہ کے درمیان کا راستہ نکالنا چاہا۔ حيات، علم، قدرت، اراده، سمع، بصر، كلام كے ساتھ اور بعض دوسری ذاتی صفات كو تسليم كيا۔ لیکن ان سب کو قدامت سے مشروط کردیا اور کلام کو قدیم کے ساتھ نفسی بھی قرار دے دیا کہ جس کا خارج میں وجود نہیں، اس میں نہ حرفہے اور نہ صوت ،نہ یہ کسی زبان کا حصہ ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دوسری تمام اختیاری صفات کا انکار کردیا اور اس کی حسب خواہش تاویل کا دروازہ بھی کھول دیا۔

جو علماء مسلک سلف پر تھے خاص کر حنابلہ ان سب نے “اثبات دون تشبیہ ولا تمثیل” کا قدیم موقف ہی اختیار کیا۔ (حنابلہ تو عقائد میں سلفی ہیںہی، میں ان کو فقہ میںبھی مقلد اہل الحدیث مانتا ہوں۔ اسی طرح شوافع اور مالکیہ کو بھی مقلد اہل حدیث، اگرچہ ان کی اکثریت عقائد میں اشعری ہوچکی ہے۔ کیونکہ عبد القاھر کی الفرق بین الفرق اور ابن خلدون کے مقدمہ شہرستانی کی ملل ونحل میں فقہ کی تقسیم اہل الحدیث اور اہل الرائی کی ہی ہے۔ تقلید عارضی چیز ہے۔ ہم غیر مقلد اہل حدیث ہیں وہ مقلد) سلفیوں کا پہلے بھی یہی موقف تھا اور اب بھی ہے۔ میں  نہیں سمجھتا کہ مولانا کا موقف بھی اہل حدیث کے اس عقیدہ سے مختلف ہوگا۔ اگر ان کا خیال اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو اس کی وضاحت ضروری ہے۔

اس عقیدہ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہی اہل سنت اور فرق باطلہ کے درمیان حد فاصل ہے کیونکہ یہی قاعدہ شیعہ، باطنیہ ، صوفیہ،خوارج اور متجددین کی تاویلات کے رد کرنے کی کسوٹی ہے۔ جس طرح اسماء وصفات کے معانی مراد ہیں، اسی طرح دوسری نصوص کا بھی ظاہر ہی قابل اعتماد ہے نہ کہ ان کی خود ساختہ تاویلات۔

اہل سنت کا موقف ابتدا سے گمراہ فرقوں کے خلاف سخت رہا ہے، ان فرقوں کی گمراہی اصلا انہی عقائد کے مسائل میں تھی، یہ رویہ ابتدائی ادوار سے ہی موجود رہا ہے، جب مسلمانوں کی غالب اکثریت صحیح العقیدہ ہوتی تھی، بعض حکمران، فقہاء اور صوفيا کو چھوڑ کر- جومعاشرے کی ایک بڑی مختصر سی تعداد تھی اورغیر معتبر بھی- سب کے سب سلف کے مسلک پر ہی قائم تھے۔اس وقت حکمرانی بھی عموما باطل فرقوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی تھی۔

اب تو نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔ شیعہ نہ صرف ایران بلکہ شام اور کسی حدتک لبنان اور یمن میں قابض ہیں، تونس اور بعض خلیجی حکمرانوں سے ان کو مدد بھی مل رہی ہے۔ اباضیہ عمان کے حاکم ہیں۔ اور ہر ایک کا دین وایمان سعودیہ کی مخالفت ہے۔

کسی کو خبر ہو یا نہ ہو آج ازہر اور دیوبند کی معاونت اور صوفیاء کی شرکت سے اشعریت اور ماتریدیت کے پرانے مسائل کی ترویج ہورہی ہے۔ سلف کے مسلک کو عمدا تفویض قرار دے  کر اثبات کو تجسیم کا ہم پلہ قرار دیا جاتاہے۔ اس طرح اشعریت اور ماتریدیت کو اصل اسلام کے نام پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسے وقت میں کسی اہل حدیث کا ان اصولوں سے انحراف یقینا خوش آئند نہیں۔

محترم رفیق صاحب کی تحریر پرگفتگو طویل ہوگئی، اگرچہ کئی باتیں اب بھی قابل توجہ ہیں، پھر بھی میں اپنی گفتگو مختصر کرتے ہوئے اسی قسط پر ختم کردوں گا۔

دہلی کا مولانا نے نقشہ کھینچا ہے کہ جس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی قبضہ کر رہی تھی دہلی میں امتناع النظیر پر بحث ہورہی تھی۔

اگر یہ بات صحیح ہو تو اس میں سلفیوں کا کیا اور کتنا قصور ہے، اس پر یقینا بات ہوسکتی ہے۔ مجھے جس تاریخ کا علم ہے اس میں 1757 میں بنگال پر قبضہ کے بعد ایسٹ انڈیا کا دور حکمرانی شروع ہوا، 1799 میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ 1803 میں دہلی بھی لے لی۔ اس سے پہلے دہلی 1788 میں غلام قادر روھیلہ اور 1789 میں سندھ کے تلخ تجربہ سے گزر چکی تھی۔ یہ تو تاریخی صورت حال تھی۔ اب یہ دیکھیں دہلی میں اہل حدیث اس وقت کتنے تھے، بالضبط تو نہیں کہا جاسکتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شاہ اسماعیل صاحب نے اپنی کتاب تقویة الایمان تقریبا 1824 کے لگ بھگ عام کی۔ اس کے بعد دہلی میں ان سے سوال وجواب شروع ہوا۔ اسی کتاب کے بعد مسئلہ امتناع النظیر کی بحث شروع ہوئی۔ فضل حق خیر آبادی کا “تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی” اور علامہ شھید کا “رسالہ یک روزی” سامنے آیا۔ اور کافی دنوں بعد ٹونکی صاحب کا رسالہ۔ یہ مسئلہ دہلی پر قبضہ کے 20 سال بعد ہوا۔ ویسے1826 میں شاہ صاحب جہاد کے لیے نکل جاتے ہیں۔ دہلی میں مناظرہ کے لیے قیام نہیں کیا۔

علامہ شہید کی پیدائش 1781 ، اور فضل حق کی 1799 کی ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس مبالغہ میں کتنی صداقت ہے کہ ایسے وقت میں جب ایسٹ الخ۔

دوسری بات یہ کہ مسئلہ امتناع النظیر تقویة الایمان لکھے جانے کےبعد یا اس کےنتیجہ میں سامنے آیا، تو کیا مقصود علامہ شہید کی مذمت ہے کہ نہ یہ کتاب لکھتے نہ یہ بحث شروع ہوتی۔ نہیں نہیں مولانا سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ خیر، فضل حق صاحب تو کبھی اہل حدیث نہیں تھے، ان کے رد وقدح کا ذمہ دار اہل حدیث کہاں سے ہوئے۔ ویسے اگر تقویة الایمان نہ لکھی گئی ہوتی تو شاید ہم اور آپ بمشکل آج اس پوزیشن میں ہوتے کہ ہندوستان میں سلفیت کے رول کاجائزہ لیں۔

مناظرے، مقابلے اور رد وقدح کے دور پر مولانا نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ قادیانیت کا ذکر کرکے چٹکی لی ہے کہ قادیانیت اپنی جگہ پر ہے، مباہلہ تو صرف دل خوش کرنے کی بات ہے۔ عرض ہے کہ 1857 سے کچھ پہلے عیسائیوں نے مناظرہ کا چیلنچ دینا شروع کیا پھر 1875 کے بعد آریا سماجی میدان میں آئے۔ یہ ہوہی رہاتھا کہقادیانیت اور پھر بریلویت اور حنفیت بھی خم ٹھونک کر آگئی۔ عیسائیت اور آریت اور قادیانیت کے رد میں تو بشمول اہل حدیث ہر مسلک کے مسلمان آگےآئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ ہر ایک کی تو پکا رخ اہلحدیث کی طرف ہوگیا۔ اب اگر اہلحدیث علماء اپنا کردار نہ ادا کرتے تو کیا ہم آج اس پوزیشن میں ہوتے کہ ان پاک نفسوں کو ہدف ملامت بنائیں۔

مولانا نے غالبا مباہلہ سے مراد مرزا غلام احمد کا 1907 والا اشتہاراور 1908 میں اس کی وفات مراد لی ہے۔ خیر یہ مباہلہ نہیں مرزا کی یک طرفہ دعا تھی۔ مباہلہ تو اس نے صرف ایک بار مولانا عبد الحق غزنوی سے کیا تھا۔ یہ دعا آج بھی قادیانیوں کے خلاف سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ قادیانیت آج بھی ہے، اس میں کیا کلام، پر اگر علماء کی یہ جدوجہد نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ مولانا اس پر بھی ضرور غور کریں۔ آج قادیانیت کس حال میں ہے؟ پاکستان جس کی حکمرانی کا وہ خواب دیکھتی تھی وہاں “غیر مسلم” قرار دی گئی۔ لندن میں ضرور ہے۔ لیکن میدان میں کام کرنے والے بتائیں گے کہ پوری دنیا میں کیا حالت ہے۔

حال کا ماتم کیجیے مستقبل کی ترتیب نہ ہونے پر سینہ کوبی کیجیے لیکن للہ ان بزرگوں کو بخش دیجیے جنھوں نے اپنا سب کچھ لگا دیا۔

مولانا کچھ لوگ مناظرہ کررہے تھے، تو کچھ حدیث کی شرح لکھ رہے تھے، جیسے عون المعبود، غایة المقصود، تحفة الأحوذي، تنقيح الرواة شرح مشكوة، حاشیة بلوغ المرام، ڈپٹی احمد حسین وغیرہ تو چند اور سرپھرے تفسیر لکھ رہے تھے عربی اردو میں، اور کچھ صرف ترجمہ قرآن۔ اسی زمانہ میں کتب ستہ کے تراجم اور بعض کی اردو شرحیں لکھی گئیں اور بعض کے اختصارات، ان کو تو تسلیم کرلیں۔

میں شہیدین کی تحریک پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا اپنوں اور غیروں کی شہادتیں موجود ہیں کہ اس تحریک نے کیا کیا۔ پر یہ تو کہہ ہی سکتا ہوں کہ سید احمد شہید کی تحریک پر یہ پھبتی بہت پرانی ہے کہ “فیل” ہوگئی۔  ہوسکتا ہے کہ ولایت اور عنایت علی کے بعد عسکری طور سے یہ تنظیم کارگر نہ رہی ہو، مگر بنگال بہار اور ترائی میں اہل حدیثوں کا اتنی بڑی تعداد میں وجود، جگہ جگہ سے مراسم تشیع کا خاتمہ ہی اتنی بڑی کامیابی ہے کہ جس پر سیکڑوں دعوتی منصوبے قربان کیے جاسکتے ہیں۔

انکار حدیث پر مولانا کا طعنہ اپنی جگہ پر مگر کیا جو کچھ ہوا ہماری تقصیر کے نتیجہ میں ہوا ہے یا اس کے اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں۔ یقینا اس پر کام کرنا چاہیے مگر یہ کام علی گڑھ سے ہو تو چار چاند لگ جائیں۔

یہ میری چند گزارشات تھیں جو قلم برداشتہ لکھ دی گئیں۔ مقصود نہ کسی پر نقد ہے نہ تنقیص صرف یہ چاہتا ہوں کہ مسائل منقح ہوجائیں۔ اللہ رب العزت اخلاص عطا فرمائے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الهادي عبد الخالق المدني

جزاكم الله خيرا على هذا التوضيح القويم والإفادة النافعة